شہر کی
اس تنگ دامانی سے یہ دل تنگ ہے
مجھ کو
رہنے کے لئے چھوٹا سا کوئی گاؤں دے
اب تو
اس بستی پہ نازل موسموں کا قہر ہو
گرمیوں
میں دھوپ ایسی سردیوں میں چھاؤں دے
یہ تو
ہر رستے پہ چلنے کے لئے تیار ہیں
جو فقط
تیری طرف اٹھیں مجھے وہ پاؤں دے
ہم
تمہارے ہیں ہمیں اس بات سے مطلب نہیں
آنسوؤں
کے شہر دے یا قہقہوں کے گاؤں دے
No comments:
Post a Comment