سنتا ہے کوئی بات نہ کہتا ہے آسماں
دن رات بس زمین کو تکتا ہے آسماں
کوئی نہیں جو اس سے کرے دو گھڑی کو بات
میں سوچتا ہوں کتنا اکیلا ہے آسماں
آتا ہے اب وہ لطف نہ چڑھتا ہے وہ سرور
یوں دیکھنے میں آج بھی نیلا ہے آسماں
میں آج بھی جہاں میں غریب الدیار ہوں
اپنی ہوئی زمین نہ اپنا ہے آسماں
یہ کس کو جیتنے کے لئے بے قرار ہے
کیوں ہر گھڑی لباس بدلتا ہے آسماں
لگتا ہے اس کو بھی کوئی دکھڑا لگا ہوا
چھپ چھپ کے سب سے رات کو روتا ہے آسماں
قوّت میں آج بھی ہے جوانوں کے سر کا
تاج
گو عمر کے لحاظ سے بوڑھا ہے آسماں
ذلّت ہے کائنات میں اب خاک کا مقام
جب سے مری زمین سے روٹھا ہے آسماں
اُس چشمِ نیلگوں کا سراپا نہیں اگر
پھر آپ ہی بتائیں مجھے کیا ہے آسماں
ہر وقت اس پہ ٹوٹتے رہتے ہیں اب عذاب
اچھی طرح زمیں کو سمجھتا ہے آسماں
جانے بھگت رہا ہے یہ کس جرم کی سزا
لٹکا ہوا خلا میں جو رہتا ہے آسماں
مجھ کو ذلیل کر کے ملے گی اسے خوشی
میں جانتا ہوں کتنا کمینہ ہے آسماں
نیلے سے ایک پل میں یہ ہو جائے گا سفید
دیکھو تو کیا عجیب تماشا ہے آسماں
کہتے ہیں لوگ اس کی حقیقت نہیں کوئی
کیا صرف دل زدوں کی تمنا ہے آسماں
No comments:
Post a Comment