سورۃ الحج
یہ مدنی سورت
ہے۔ اٹھتر آیتوں اور دس رکوع پر مشتمل ہے۔ قیامت اور توحید باری تعالیٰ کے بیان
کے ساتھ اس میں حج اور جہاد کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ اے انسانو! اللہ سے
ڈرو قیامت کا جھٹکا بڑا ہولناک ہوگا۔ دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں
کو بھول جائیں گی جبکہ حاملہ عورتیں اس دن کی دہشت اور خوف سے اپنے بچے ساقط کردیں
گی۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا برحق ہے۔ اپنی پیدائش میں غور کرنے سے یہ عقیدہ
تمہیں بہت اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ مٹی سے نطفہ، نطفہ سے لوتھڑا، پھر گوشت کا
ٹکڑا جس کی تخلیق کبھی مکمل ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ ایک متعینہ مدت کے لئے رحم
مادر میں پڑا رہنا، پھر کمزور و بے کس بچہ کی شکل میں پیدا ہونا، پھر بھرپور جوانی
کو پہنچنا، پھر قویٰ کی کمزوری کے ساتھ بڑھاپے کی منزل تک پہنچنا اس بات کا غماز
ہے کہ قادر مطلق تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ زمین کو دیکھو! بنجر و
ویران ہوتی ہے،بارش برستی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیتیاں اور باغات اگنے لگتے
ہیں اور پھر پھلنے پھولنے اور لہلہانے لگتے ہیں۔ اس سے اللہ کی قدرت کا اندازہ
کرکے سمجھ لو کہ وہ ہر چیز پر قوت رکھتا ہے۔ پھر قیامت کے مزید تذکرہ کے ساتھ نیک
و بدکا انجام ذکر کیا اور پھر حرم شریف اور کعبۃ اللہ میں حاضری، عبادت اور اعتکاف
سے روکنے والوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت اور ان کے عمل کو ظلم و الحاد قرار دے
کر دردناک عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے
شاندار کارنامہ کا تذکرہ اور نماز اور طواف کرنے والوں کے لئے اسے پاک و صاف رکھنے
کا حکم ہے اور لوگوں کو دنیا بھر سے کعبۃ اللہ کی زیارت کے لئے آنے کی دعوت دینے
کا حکم ہے۔ حج کے عظیم الشان اجتماع میں قربانی اور صدقہ و خیرات سے غرباء و
مساکین کی کفالت اور تجارت اور کاروبار کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے تمام افراد کے
مفادات و منافع کی حفاظت کی نوید ہے۔ پھر اہل ایمان کے دفاع کے نظام سماوی کا
تذکرہ اور مؤمنین کو جہاد کے لئے قدم اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جب ظلم و ستم حد
سے تجاوز کرنے لگے تو مسلمانوں کو اپنے دفاع اور تحفظ کے لئے قتال فی سبیل اللہ کا
عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اللہ اپنے ایسے بندوں کی مدد ضرور کیا کرتے ہیں جو زمین پر
بااختیار ہوکر نماز اور زکوٰۃ کے نفاذ کے ساتھ ہی اچھائیوں کو پھیلانے اور برائیوں
کو روکنے کا نظام نافذ کرتے ہیں۔ پوری انسانیت کے لئے محمد رسول اللہ کے بشیر و
نذیر ہونے کا بیان کرتے ہوئے مؤمنین و منکرین کے انجام کا تذکرہ ہے۔ پھر شیاطین
کی دستبرد سے دین اسلام کے محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔ پھر کفر کی ذہنیت کی وضاحت ہے
کہ وہ دلائل پر یقین نہیں رکھتے۔ ڈنڈے کے یار ہیں۔ قیامت کا جھٹکا ہی انہیں ایمان
کا راستہ دکھا سکے گا۔ ہجرت اور اس کے لازمی نتیجہ جہاد کے ذریعہ شہادت کے مرتبہ
پر فائز ہونے والے یا طبعی موت مرنے والوں کے لئے بہترین رزق اور پسندیدہ رہائش
یعنی جنت میں داخلہ کی نوید سنائی گئی ہے۔
پھر کائناتی
شواہد میں غور و خوض کرکے اللہ کی وحدانیت تسلیم کرنے کی تعلیم ہے۔ موت اور زندگی
اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر امت کو علیحدہ نظام حیات دیا گیا ہے۔ اختلاف کرنے کی
بجائے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جب انہیں قرآن سنایا جاتا ہے تو ان کے چہروں پر
مردنی چھاجاتی ہے۔ انہیں بتائیے کہ تمہارے لئے اس سے بھی بدترین خبر جہنم کی آگ
ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں کے لئے کررکھا ہے۔ پھر معبود حقیقی اور معبودان باطل
کے امتیاز کے لئے معرکۃ الآراء مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ جن کی پرستش
کرتے ہو وہ ایک مکھی پیدا کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ مکھی جیسی کمزور
ترین مخلوق اگر ان کے کھانے کا کوئی ذرہ اٹھا کر لے جائے تو یہ سب مل کر اس سے
واپس لینے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ طالب و مطلوب سب کمزور اور ضعیف ہیں۔ یہ لوگ
انبیاء ور سل کا انکار کرکے اللہ کی ناقدری کررہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے منتخب
نمائندے ہیں۔ اللہ کے راستہ میں جہاد کا حق ادا کردو۔ اس نے تمہارے دین میں کوئی
مشکل احکام نہیں دیئے ہیں۔ ملت اسلامیہ ہی دراصل ملت ابراہیمی ہے۔ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم امت مسلمہ کے اعمال پر گواہ بنیں گے اور امت مسلمہ دوسری امتوں کی
گواہی دے گی۔ لہٰذا تم نماز اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے
تھامے رکھو۔ وہ بہترین حمایتی اور بہترین مددگار ہے۔
أپ کا بہت بہت شکریہ اس خلاصہ کے لۓ
ReplyDeleteThanku very much
ReplyDeleteSurah haj ka mazmon
ReplyDeleteBohat bohat shukaria ap ka or ya kahi or par mil hi nahi raha tha
ReplyDeleteNice work
ReplyDeleteis Surah men ek or bht eham cheez he jo is khulasa men ni he, Qurabni k barey men.
ReplyDelete