سورۃ الانفال
انفال کے
معنیٰ مال غنیمت کے ہیں، اس سورہ میں غنیمت کے احکام کا بیان ہے۔ اس میں غزوہ بدر
کا تفصیلی تذکرہ ہے اس لئے بعض مفسرین نے اسے سورہ بدر بھی کہا ہے۔ پچھتر آیات اور
دس رکوعات پر مشتمل یہ مدنی سورہ ہے۔ اس سورہ میں چھ مرتبہ یا ایہا الذین اٰمنوا
کہہ کر خطاب کرتے ہوئے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ دیئے جانے والے احکام پر عمل ایک
مسلمان کے ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ لوگ مال غنیمت کے
بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے
وہ جس طرح چاہے اس کی تقسیم کا حکم جاری کرے۔ پھر کامل ایمان والوں کی صفات، اللہ
کے ذکر سے متاثر ہونا، کلام اللہ کو سن کر دلوں کا نرم ہوجانا اور اللہ پر توکل
کرنا مذکور ہے۔ پھر بدر کے ابتدائی مرحلہ کا تذکرہ ہے کہ نکلتے وقت تمہارے بعض لوگ
پوری طرح تیار نہ ہونے کی وجہ سے جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن جب نبی کے ساتھ مل
کر کافروں سے مقابلہ کے لئے میدان میں آگئے تو اللہ نے فرشتے اتا رکر تمہاری مدد
فرمائی۔ کافر قتل اور زخمی ہوئے اور میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور
ہوئے۔ مجاہدین کی عظمت کا بیان ہے کہ تم نے جو کافر قتل اور گرفتار کئے یا ان پر
تیر برسائے تو درحقیقت وہ اللہ نے سب کچھ کیا۔ پھر بتایا کہ میدان جہاد سے بھاگنے
والے کا ٹھکانہ جہنم ہے البتہ اگر مزید تیاری کرکے دوبارہ حملہ آور ہونے کے ارادے
سے پیچھے ہٹا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ اور اسکے رسول کا جب بھی کوئی حکم آئے
تو اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہ کریں اس میں تمہاری حیات کا راز مضمر ہے۔ کافر لوگ
نبی کو گرفتار یا قتل کرنا چاہتے ہیں یا انہیں علاقہ بدر کرنے کے لئے کوشاں ہیں
مگر ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کی سازشوں کا توڑ کرتے رہیں گے۔
اسلام کا راستہ روکنے کے لئے کافر اپنا مال خرچ کررہے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں
پڑے گا۔ یہ جتنا مال چاہیں خرچ کردیں آخر کار انہیں اپنا مال ضائع ہونے پر حسرت
اور افسوس ہی ہوگا۔ دشمنان اسلام کو یہ پیغام دے دو کہ اگر وہ اسلام دشمن ہتھکنڈوں
سے باز آجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے ورنہ پہلی قوموں کی گرفت، نظام دنیا کے
سامنے موجود ہے۔ قتال فی سبیل اللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا سے فتنہ و
فساد ختم ہوکر دین اسلام کا نظام پوری دنیا پر غالب نہ آجائے۔
وَاعْلَمُواْ
پارے کی
ابتداء میں بتایا گیا ہے ’’مال غنیمت‘‘ میں سے
پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین میں تقسیم کردیئے
جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر غزوہ بدر میں کفر و اسلام
کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم مقابلہ کا وقت مقرر کرلیتے تو اس
بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا
مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ
تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں
کامیاب کرکے حق و باطل کا فرق واضح کردیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت
ہو اور جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔ اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی کا
مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان ہے کہ اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ورنہ
ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کافر ریاکاری اور تکبر کے ساتھ میدان میں اس لئے
نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان
کی حوصلہ افزائی کررہا تھا مگر جب اس نے فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی
دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کررہا ہوں وہ تمہیں
نظر نہیں آرہی ہے۔ اس وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے
تھے، ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے
بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر توکل کرنے
والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا کرتے ہیں۔ پھر اللہ
تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ
کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوکر رہیں گے۔ اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا
ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے
جب تک وہ اپنی عملی زندگی میں انحطاط کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت محمد علیہ السلام
پر ایمان نہ لانے والے لوگ بدترین جانور ہیں۔ یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ
کی مخالفت کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :عہد شکنی
کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور
خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ جاتی ایسے معاہدے
توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے وہ اللہ
کو عاجز نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے
لئے تم لوگ جس قدر ہوسکے قوت اور مضبوط گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو
بھی اخراجات کروگے اللہ تمہیں واپس کردیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی
کمزوری کا مظاہرہ نہ کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح
کرلینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان
والوں کی قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض
اپنے فضل و کرم سے باہم شیر وشکر بناکر آپ کے گرد جمع کردیا ہے۔ ساری دنیا کا مال
دولت خرچ کرکے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح اللہ نے انہیں جمع
کردیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے
بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداء
میں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا
تناسب ہوتو میدان سے ہٹ جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب
تعداد زیادہ ہوگئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی
صورت میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔
غزوہ بدر میں
ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آگیا۔ اس
سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل
کردیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ دوسری رائے
کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف
استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں
فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا
اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد
ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا
مشکل ہوجائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں
سے ہجرت کرکے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جاکر مقیم ہوجانے کا حکم ہے۔ ایمانی
تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا
میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔
No comments:
Post a Comment