تمہارا
نام بس اونچا رہے گا
انتا
ہوں میں یہ سورج کا دیا بجھ جائے گا
ہر طرف
پھر رات کا آنچل کوئی لہرائے گا
پھر مرے
دل میں کھلیں گے زرد لمحوں کے گلاب
بے طرح
پھر سے وہی ظالم مجھے یاد آئے گا
آسمانوں
سے پرے منزل بلاتی ہے کوئی
تو مجھے
کب تک یہاں اس خاک میں بہلائے گا
دل کو
ان باتوں سے کوئی فرق تو پڑتا نہیں
شوق سے
کل پھر وہاں جائے گا جوتے کھائے گا
ٹوٹ کر
آیا ہے اس ظالم یہ کہتے ہیں شباب
اب تو
اُس کو دیکھ کے دل اور بھی للچائے گا
ہر حسیں
چہرہ پہ مر مٹنے کی عادت چھوڑ دے
دل کو
لیکن کیسے کوئی بات یہ سمجھائے گا
وصل کا
یہ لمحہ دل میں باندھ رکھوں گا کہیں
پھر ابد
تک یہ مری تنہائیاں مہکائے گا
میری
آنکھیں بند ہونے کا ہے شاید منتظر
رات دن پھر
گیت میرے یہ زمانہ گائے گا
تجھ سے
کج رفتار پہلے بھی کئی آئے گئے
آسماں
اک روز تیرا دور بھی لد جائے گا
No comments:
Post a Comment