سورہ الکہف
الکہف عربی میں
غار کو کہتے ہیں، اس سورت میں چند ایمان والے نوجوانوں کا ذکر ہے، جنہیں ایمان کے
تحفظ کے لئے غار میں پناہ لینی پڑی تھی اس لئے پوری سورت کو کہف کے نام سے موسوم
کردیا۔ مشرکین کے تین سوالوں کے جواب میں یہ سورت اتری تھی۔ روح کیا ہے اس کا جواب
سورۂ بنی اسرائیل میں ہے۔ کہف میں پناہ لینے والے نوجوانوں کے ساتھ کیا بیتی اور
مشرق و مغرب میں فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑنے والے بادشاہ کا کیا واقعہ ہے ان
دونوں سوالوں کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔ اس سورت میں چار واقعات (۱)اصحاب
کہف (۲)آدم و ابلیس (۳)موسیٰ و خضر (۴)ذوالقرنین
کا ذکر ہے جبکہ دنیا کی بے ثباتی کے بیان کے لئے دو مثالیں دی گئی ہیں۔
ابتداء میں
تمام تعریفوں کا مستحق اللہ کو قرار دے کر بتایا ہے کہ اسی نے واضح اور ہر قسم کی
کجی سے پاک و صاف قرآن اتارا ہے پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت
کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سرزمین پر ہر قسم کی نعمتیں اور آسائشیں اتار کر انسان
کی آزمائش مقصود ہے۔ پھر اصحاب کہف کا واقعہ شروع کردیا۔ ان کا واقعہ اللہ کی
نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اس مرحلہ
کو بیان کرتا ہے جس میں حکمت عملی کے تحت کارکنوں کو زیرِ زمین ہونا پڑتا ہے۔ حضور
علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال قبل اردن کے ملک میں دقیانوس نامی بادشاہ تھا،
اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ملک کے ہر علاقہ سے نمائندے طلب کئے، جن میں
چند نوجوان ایسے نکلے جو اس کے کفر و شرک اور ظلم و ستم میں اس کی حمایت کے لئے تیار
نہیں تھے۔ انہوں نے بادشاہ سے مہلت طلب کی اور باہمی مشورہ کرکے طے کیا کہ ایمان و
کفر میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا۔ لہٰذا ایمان بچانے کے لئے یہ لوگ رات ہی
رات خاموشی سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک کتابھی ان کے پیچھے ہولیا۔ لمبا سفر کرکے یہ لوگ
تھک گئے اور ایک غار میں آرام کے لئے لیٹ گئے اور کتا غار کے دہانے پر بیٹھ کر
سوگیا۔ جب یہ لوگ دوسرے روز بادشاہ کو نہ ملے تو انہیں تلاش کرایا گیا اور پھر مایوس
ہوکر ان کے نام ایک تختی پرلکھ کر رکھ دیئے گئے۔ یہ لوگ غار میں پڑے سوتے رہے سردی
گرمی، دن رات ہرحال میں اللہ نے ان کی حفاظت کی۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور
یہ کروٹیں بھی بدلتے تھے۔ دیکھنے والا انہیں بیدار خیال کرکے مرعوب ہوکر بھاگ جاتا۔
کتا بھی غار کے دہانہ پر ایسے بیٹھا ہوا سورہا تھا جیسے وہ گھات لگاکر کسی پر حملہ
آور ہونا چاہتا ہو جب اللہ نے انہیں بیدار کیا تو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے
لگے کہ ہمیں سوتے ہوئے کتنا وقت گزرا ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دن یا آدھا دن
ہوا ہوگا مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے
تین سو نوسال تک یہ لوگ سوتے رہے تھے۔ بیدار ہونے پر انہیں بھوک نے ستایا۔ رقم جمع
کرکے ایک آدمی کو احتیاط کے تمام پہلو مدنظر رکھتے ہوئے کھانا لینے کے لئے شہر بھیجا،
جس ہوٹل سے اس نے کھانا لیا اس کے مالک نے پرانے سکے دیکھ کر اسے پولیس کے حوالہ
کردیا۔ اس طرح اسے بادشاہ کے دربار میں پہنچادیا گیا۔ ان دنوں وہاں کا بادشاہ
مسلمان تھا مرنے کے بعد زندہ ہونے کا قائل تھا۔ لوگ اس کے عقیدہ کو نہیں مانتے تھے
وہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ اللہ کی کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو کہ وہ اپنی قوم کو صحیح
عقیدہ کا قائل کرسکے۔ جب اس نوجوان کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اور تحقیقات سے پتہ
چلا کہ یہ ان نوجوانوں کا ساتھی ہے، جن کے نام آج سے تین صدیاں قبل ایک تحریر کی
شکل میں محفوظ کردیئے گئے تھے تو بہت خوش ہوا۔ لوگ اس واقعہ کو سن کر ایمان لے آئے
اور جہاں اصحاب کہف دریافت ہوئے تھے ان کی یادگار کے طور پر مسجد تعمیر کردی گئی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کرنے سے ہم لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتے
تھے کہ قیامت برحق ہے اور مرنے کے بعد ہر انسان کو زندہ ہونا ہے۔ یہ لوگ تین تھے
چوتھا کتا تھا۔ پانچ تھے چھٹا کتا تھا یا سات تھے آٹھواں کتا تھا۔ اللہ ہی جانتے
ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کتنی تھی اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اللہ کی قدرت
ہرحال میں ظاہر ہوجاتی ہے۔
کافروں کے
سوالوں کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمادیا تھا کہ کل جواب دے دوں گا اور ان
شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہوئی اور فرمایا کہ آئندہ
جب بھی کوئی کام کرنا ہوتو ان شاء اللہ کہا کریں۔ پھر قرآن کریم پر غیرمتزلزل ایمان
رکھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا اور غریب اہل ایمان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے
کی تلقین فرمائی۔ پھر جنت جہنم کا تذکرہ کیا اور دو دوستوں کی مثال دی جن میں ایک
کافر، متکبر اور مال و دولت کا پجاری دوسرا غریب متواضع اور اللہ کی مشیت پر راضی۔
اللہ نے کافر کا مال و دولت تباہ کرکے بتادیا کہ جب اللہ کی پکڑ آجائے تو اس سے
کوئی نہیں بچ سکتا۔ پھر دنیا کی زندگی کی بے ثباتی کی مثال دے کر بتایا کہ بارش کے
نتیجہ میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں مگر اچانک کسی آفت سے تباہ ہوکر رہ جاتی ہیں
اور کسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ پھر آدم و بلیس کا قصہ ہے۔ قرآن کریم میں ہر قسم
کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مختلف پیرائے اور اسالیب میں دلائل پیش کرنے کا تذکرہ
اور اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اگر دنیا کو ہلاک کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔
مگر اس نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور اس کی رحمت کے تقاضے کے پیش نظر گناہ گاروں
کو مہلت دی ہوئی ہے۔ پھر حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ کا بیان ہے۔ ایک
مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑی زبردست تقریر فرمائی، جس سے لوگ بہت متأثر
ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ آپ نے اپنی معلومات کے مطابق
فرمادیا کہ مجھ سے بڑا اس وقت کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے
سب سے بڑے عالم سے ملاقات کے لئے رخت سفر باندھنے کا حکم دیا اور زاد راہ کے طور
پر ایک بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لینے کے لئے فرمایا۔ حضرت موسیٰ ارشاد خداوندی کے
مطابق ایک شاگرد کو ساتھ لے کر مقررہ سمت میں روانہ ہوگئے۔ ساحل سمندر پر آپ کا
سفر جاری رہا۔ ایک جگہ تھک کر آرام کرنے کے لئے ٹھہرے تو مچھلی سمندر میں چلی گئی
اور ایک سرنگ نما راستہ بناگئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سرنگ میں پانی کے اندر
چلے گئے، جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات پر ان سے تحصیل علم کے لئے درخواست
کی، انہوں نے فرمایا کہ میرا علم آپ کی قوت برداشت سے باہر ہے۔ آپ میری باتوں پر
صبر نہیں کرسکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کرنے اور کسی قسم کے سوالات نہ
کرنے کا دعویٰ کیا، جس پر موسیٰ و خضر علیہما لسلام ’’علمی سفر‘‘ پر سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوگئے۔
No comments:
Post a Comment