پہلے پارہ کی
ابتداء سورہ بقرہ سے ہوتی ہے۔ بقرہ گائے کو کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں جرم و سزا
اور سراغ رسانی کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا تھا جس میں مجرم کی نشاندہی معجزانہ
طریقہ پر کی گئی تھی، جو بنی اسرائیل کے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔ اس سورت
میں دوسرے مضامین کے علاوہ زیادہ تر روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف ہے۔ ان کے دلوں
میں اسلام کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے اس معجزانہ واقعہ کی طرف اشارہ کے طور
پر پوری سورت کو بقرہ سے موسوم کردیا گیا۔ سورہ بقرہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت
ہے جس میں متنوع اور مختلف مضامین کا بیان ہے۔ حروف مقطعات سے سورت کی ابتداء کرکے
یہ پیغام دیا گیا ہے کہ قرآنی علوم و معارف سے استفادہ کے لئے اپنی جہالت اور کم
علمی کا اعتراف اور علمی پندار کی نفی پہلا زینہ ہے، کلام الٰہی پر غیر متزلزل
یقین اور اسے ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر سمجھنا دوسرا زینہ ہے۔ نیز یہ بھی
بتایا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی تھی وہ قرآن
کریم کی شکل میں آپ کو عطا کررہے ہیں۔
ابتدائی بیس
آیتوں میں انسان کی تین قسموں کا بیان ہے: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنی
زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے اپنے مالی و جسمانی اعمال کو قرآنی
نظام کے تابع لانے کے لئے تیار ہیں۔ یہ لوگ قرآن کریم اور اس سے پہلی آسمانی
کتابوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کافر ہیں، وہ اپنی
زندگی کی اصلاح اور اس میں قرآنی نظام کے مطابق تبدیلی کے لئے بالکل تیار نہیں
ہیں۔ تیسری قسم ان خطرناک لوگوں کی ہے جو دلی طور پر قرآنی نظام کے منکر ہیں مگر
ان کی زبانیں ان کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ قرآن کریم کو ماننے میں اگر کوئی
مفاد ہے تو اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور اگر اس سے مفادات پر چوٹ پڑتی
ہے تو اس کا انکار کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ان کے دل و زبان میں مطابقت نہیں ہے،
اسے منافقت کہتے ہیں۔ منافقت کے ذریعہ انسانوں کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر دلوں
کے بھید جاننے والے اللہ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ لوگ اصلاح کے نام پر دنیا
میں فساد برپا کرتے ہیں اور قرآنی نظام کے وفادار اہلِ ایمان کو عقل و دانش سے
محروم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود شعور و آگہی سے بے بہرہ اور محروم ہیں۔ یہ
لوگ ہدایت و روشن خیالی کے مقابلہ میں تاریک خیالی اور گمراہی کی تجارت کررہے ہیں
اور یہ بڑے خسارہ کا کاروبار ہے۔ قرآن کریم نے دو مثالوںکے ذریعہ منافقت کی دو
قسموں کو واضح کیا ہے۔
۱: کسی شخص نے ٹھٹھرتی، اندھیری رات میں سردی سے
بچنے اور روشنی حاصل کرنے کے لئے آگ جلائی اور جیسے ہی چاروں طرف روشنی پھیلی تو
وہ آگ ایک دم بجھ گئی اور وہ گھپ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ رہا۔
۲: رات کے وقت اندھیرے کے اندر کھلے میدان میں
موسلادھار بارش میں کچھ لوگ پھنس کر رہ گئے، بجلی کی کڑک ان کے کانوں کو بہرہ کئے
دے رہی ہو اور چمک سے ان کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں اور اس ناگہانی آفت سے وہ موت
کے ڈرسے کانوں میں انگلیاں ٹھوسے ہوئے ہوں۔ بجلی کی چمک سے انہیں راستہ دکھائی
دینے لگے مگر جیسے ہی وہ چلنے کا ارادہ کریں تو اندھیرا چھا جائے اور انہیں کچھ
بھی سجھائی نہ دے۔ یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں کیونکہ آیات خداوندی کے تقاضوں کو
پورا نہیں کرتے۔
اس کے بعد
انسانیت سے پہلا خطاب کیا گیا اور ایک وحدہ لاشریک لہ رب کی عبادت کا پہلا حکم دیا
گیا۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ جس میں
انسان کو عدم سے وجود بخشنا اور اس کی زندگی کی گزر بسر کے لئے آسمان و زمین کی
تخلیق اور بارش اور سبزیوں اور پھلوں کی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ پھر قرآن کریم کے
کلام الٰہی ہونے کی عقلی دلیل دی گئی ہے کہ اگر تم اسے بشر کا کلام سمجھتے ہو تو
تم بھی بشر ہو۔ ایسا کلام بنا کر دکھا دو ورنہ جہنم کا ایندھن بننے کے لئے تیار
ہوجائو۔ قرآن کریم کی ایک سورت بلکہ ایک آیت بنانے سے بھی عاجز آجانا اس بات کی
واضح دلیل ہے کہ یہ محمد علیہ السلام کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
اس کے بعد قرآنی نظام کے منکرین کے لئے جہنم کے بدترین عقوبت خانہ کی سزا اور اس
کے ماننے والوں کے لئے جنت کی بہترین نعمتوں اور پھلوں کے انعام کا تذکرہ ہے۔
قرآن کتاب ہدایت ہے، انسانی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی بھی اسلوب بیان اپنا
سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے مکھی یا مچھر یا کسی دوسرے چھوٹے یا بڑے جانور
کی مثال دے سکتا ہے، مسئلہ مثال کا نہیں اس سے حاصل ہونے والے مقصد کا ہے۔
سَيَقُولُ
مسلمان پہلے
بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے، پھر بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم
ہوا تو یہودیوں نے اعتراض کیا۔ پارہ کی ابتداء میں اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
تحویل قبلہ کے حکم خداوندی پر ناسمجھ لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو
چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ اس کا جواب دیا کہ تمام جہات: مشرق و مغرب
اللہ ہی کی ہیں، وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے۔ کسی بندہ کو
اعتراض کا حق نہیں ہے۔ اللہ نے فرماں برداروں اور نافرمانوں میں تمیز کے لئے
تحویلِ قبلہ کا حکم دیا ہے کہ فرماں بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے
کی بجائے اعتراضات پر اتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافر و منافق کھل
کر سامنے آجائیں گے۔ اس کے بعد امت مسلمہ کے اعتدال اور میانہ روی کا تذکرہ اور
فضیلت کا بیان ہے کہ قیامت کے دن جب کافر اپنے نبیوں پر تبلیغ رسالت میں کوتاہی
کرنے کا اعتراض کریں گے تو امت محمدیہ کے لوگ انبیاء علیہم السلام کے فریضۂ نبوت
کی ادائیگی پر گواہ کے طور پر پیش ہوں گے اور حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام ان
سب کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے۔
آپ کتنے
دلائل پیش کردیں ان اہل کتاب پر تعصب و ہٹ دھرمی کا ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ یہ
کسی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ نماز میں قبلہ کی طرف سفر و حضر میں
رخ کرنا ضروری ہے۔ اہل کتاب حضور علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو اس طرح جانتے
ہیں جس طرح اپنی اولاد کو جانتے ہیں مگر حق کو چھپانے کے مرض میں مبتلاء ہیں اس
لئے آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرنے کی عادت بنائیں۔
نماز اور صبر کے ذریعہ مشکلات پر قابو پانا چاہئے اور اسلام کے لئے جانی و مالی ہر
قسم کی بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہیں۔ اللہ کے راستہ میںجانی قربانی دینے
والے مردہ نہیں ہیں، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔حج و عمرہ کے موقع
پر کئے جانے والے اعمال خصوصاً صفاو مروہ کی سعی اسلامی شعائر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے
نازل کردہ دلائل اور ہدایت کے واضح احکام کو چھپانے والے لعنت خداوندی کے مستحق
ہیں لیکن توبہ تائب ہوکر اپنا رویہ درست کرکے احکامِ خداوندی کو بیان کرنے لگیں تو
وہ لعنت سے بری ہوسکتے ہیں۔ معبود حقیقی ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے
لائق نہیں، اس کی رحمت تمام مخلوقات کے لئے عام ہے اور اہل ایمان کے لئے اس کی
رحمت تام ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق، دن رات کی ترتیب اور انسانی نفع کے لئے پانی
میں چلنے والی کشتیاں، بادل، بارش، زمین سے نکلنے والے پھل اور سبزیاں اللہ تعالیٰ
کی وحدانیت کے عقلی دلائل ہیں۔اللہ کے مقابلہ میں معبودان باطل کے ماننے والے
قیامت کے دن پچھتائیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے مگر جہنم سے کسی
طرح بھی بچ نہیں سکیں گے۔ قرآن کریم کے اتباع کی تلقین ہے اور قرآن کے مقابلے
میں آباء و اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو اندھے بہرے کہہ
کر جانوروں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔
پاکیزہ اور
حلال کھانے کا حکم ہے۔ مردار، جاری خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لئے نامزد اشیاء کی
حرمت کا اعلان ہے۔ نیز اس ضابطہ کا بیان بھی ہے کہ جان بچانے کے لئے ضرورت کے وقت
حرام کا استعمال بھی گناہ نہیںہے۔ نیکی اور اس کی مختلف اقسام کی فہرست بیان کی
گئی ہے۔ نیکی دراصل ایمانی بنیادوں پر سر انجام پانے والے اعمال ہیں۔ عزیز و
اقارب،یتیم و مسکین کے ساتھ مالی تعاون، نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام، ایفاء عہد،
مشکلات میں حق پر صبر و ثابت قدمی کا مظاہرہ، سچائی کا التزام کرنے والے ہی متقی
کہلاسکتے ہیں۔ قصاص و دیت کے قانون کو بیان کرکے بلا امتیاز اس پر عملدرآمد کی
تلقین ہے۔ قصاص حیات انسانی کے تحفظ کا ضامن ہے۔ وصیت کی تلقین کرتے ہوئے کسی پر
ظلم و نا انصافی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ روزہ کے احکام اور اس کی حکمتوں کا
بیان ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت کا سبب اس مہینہ میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔
رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور بیویوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ نیز اعتکاف کے عمل
کا تذکرہ ہے، روزہ کے ابتدائی اور انتہائی وقت کا بیان ہے۔ دوسروں کا مال ناجائز
طور پر کھانے اور لوگوں کو ناجائز مقدمات میں الجھانے سے باز رہنے کی تلقین ہے۔
قمری مہینہ کے
مختلف ایام میں چاند کے چھوٹا بڑا ہونے کی حکمت بتائی گئی ہے کہ اوقات کے انضباط
اور حج وغیرہ کی تاریخوں کے تعین کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ دنیا سے برائی ختم کرنے
کے لئے قتال فی سبیل اللہ اور اس کے احکام کا تذکرہ ہے، احترام کے ضابطہ کا بیان
ہے۔ حرمت بدلہ کی چیز ہے لہٰذا احترام کروانے کے لئے دوسروں کے مقدسات کا بھی
احترام کرنا ہوگا۔ اللہ کے دین کے دفاع میں مال خرچ کرنا ہی تباہی سے بچنے کا
بہترین ذریعہ ہے۔ عمرہ اور حج کے احکام ہیں۔ اگر حالت احرام میں خانہ کعبہ تک
پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو ’’دم‘‘ دے کر احرام کھول سکتے ہیں۔ حج تمتع یا قران کی
صورت میں ’’دم شکر‘‘ دینا ہوگا۔ احرام کی حالت میں غیر اخلاقی حرکتوں
سے گریز کیا جائے۔ جنسی موضوع پر گفگو نہ کریں، مساوات کو مدنظر رکھ کر تمام افعال
حج کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ جمرات کی کنکریاں تین دن واجب ہیں۔ چوتھے دن حاجی کی
صوابدید پر منحصر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا جائے اور دنیا و
آخرت کی خیر اور بھلائی مانگی جائے۔
دو قسم کے
انسانوں کا تذکرہ:
کبر و نخوت،
فساد و ہٹ دھرمی کے خوگر جو اللہ کی بات کسی قیمت پر بھی تسلیم نہ کریں ان کا
ٹھکانہ جہنم ہے۔ عجزو اخلاص کے پیکر جو اپنی جان و مال اللہ کے لئے خرچ کرنے کے
لئے ہر وقت تیار ہوں وہ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے مستحق ہیں۔ شیطان کی
اتباع چھوڑ کر پورے پورے اسلام میں داخل ہونے کی تلقین۔بنی اسرائیل اور ان پر
انعامات خداوندی کا تذکرہ۔ مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کے لئے ضابطہ کا بیان کہ
دلائل کی بنیاد پر حق کی اتباع کرنے والے ہدایت یافتہ اور پسندیدہ لوگ ہیں جبکہ
دلائل سے تہی دامن اپنے من مانے نظریات پر چلنے والے قابل مذمت اور گمراہ ہیں۔ جنت
کے حصول کے لئے قربانیوں کے لمبے سلسلے اور تکالیف و مشقت کی پر خطر وادی سے گزرنا
پڑتا ہے۔ جہاد طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے مگر انسانیت کا اس میں فائدہ ہے۔ دوسروں
پر اعتراض کرنے والوں کو خود اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ مسلمانوں پر جہاد
کے حوالہ سے اعتراض کرنے والے اپنے ظلم و نا انصافی پر بھی غور کریں کہ وہ
مسلمانوں کو بیت اللہ سے روکتے ہیں۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے راستہ میں رکاوٹ
بنتے ہیں، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے ہیں۔ ایسی فتنہ پردازی تو قتل
سے بھی بدتر ہے۔ شراب اور قمار کے بارے میں ابتدائی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کے
فوائد و نقصانات میں تقابل کی تلقین کی گئی ہے۔ یتیموں کی کفالت کی تعلیم ہے اور
نکاح میں توحید پرست کو بت پرستوں پر ترجیح دینے کا حکم ہے۔ خواتین کے مسائل جن
میں حالت حیض میں اپنی بیویوں سے دور رہنے کا حکم ہے۔
جھوٹی قسم سے
بچنے کی ترغیب ہے۔ بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم (ایلائ) کے حکم کا بیان ہے۔ طلاق
اور عدت گزارنے کا خاص طور پر تین طلاق کا حکم اور حلالہ شرعی کا بیان ہے۔ بچوں کو
دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی گئی ہے اور زچہ و بچہ کی کفالت شوہر کے ذمہ رکھی
گئی ہے۔ شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کو چار ماہ دس روز عدت گزارنے کا حکم ہے۔
عدت کے ایام میں نکاح یا منگنی کے موضوع پر گفتگو کی ممانعت کی گئی ہے۔ نکاح کے
بعد اگر بیوی سے ملاقات سے پہلے ہی طلاق اور علیحدگی کی نوبت آجائے تو مہر متعین
ہونے کی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔ ان شرعی ضوابط کی پابندی اللہ کا
حق ہے، لہٰذا ایک دوسرے کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرنے کے لئے شرعی ضوابط
کو پامال نہ کیاجائے۔
نما زکی
پابندی اور اس کے اہتمام کی تلقین ہے کہ کسی خوف و خطرہ کی وجہ سے اگر کھڑے ہوکر
نہ پڑھ سکیں تو سواری پر ہی ادا کرلیں۔
جہاد کی ترغیب
دینے کے لئے ایک قوم کا تذکرہ ہے، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے محض اس لئے نکل
بھاگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت
حزقیل کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ پھر جہاد کا حکم اور اس کے ساتھ ہی اللہ
کے نام پر مال خرچ کرنے کی تلقین ہے۔ پھر مسلم حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت
کے درمیان مقابلہ کا تذکرہ ہے۔
بنی اسرائیل
کے جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ظالم قوم عمالقہ کو اللہ تعالیٰ
نے ان پر مسلط کردیا تو انہیں جہاد کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت شمویل علیہ السلام کے
ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلم بادشاہ طالوت کی زیر قیادت جہاد کا حکم
دیا۔ طالوت کی امارت پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی
قوت اور جنگی علوم میں مہارت کو اس کی اہلیتِ امارت کی دلیل کے طور پر بیان کیا
اور بنی اسرائیل کے مذہبی مقدسات اور حضرت موسیٰ و ہارون کے تبرکات پر مشتمل تابوت
جوکہ دشمنوں کے قبضہ میں تھا۔ انہیں واپس دلاکر ان کی تسلی اور دل جمعی کا انتظام
کردیا۔ بنی اسرائیل نے کچھ پس و پیش کے بعد جہاد پر آمادگی ظاہر کردی۔ طالوت نے
جنگی نقطۂ نظر سے کچھ پابندیاں عائد کیں، جن میں راستہ میں آنے والے دریا سے
پانی پینے کی ممانعت بھی شامل تھی۔ بہت سے لوگ اس کی پابندی نہ کرسکے اور جہاد میں
شرکت کے لئے نا اہل قرار پائے۔ ایک قلیل تعداد جوکہ بعض روایات کے مطابق تین سو
تیرہ تھی جہاد میں شریک ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دے کر اہل ایمان کو
غالب کرکے ہمیشہ کے لئے یہ ضابطہ بتادیا کہ اللہ کی مدد قلت و کثرت کی بنیاد پر
نہیں بلکہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے اور دوسرا ضابطہ یہ بتایا کہ جب
ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن بندوں کو استعمال
کرکے ظالموں کا صفایا کردیا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام درہم برہم
ہوکر رہ جائے۔
حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا نبی امی ہونے کے باوجود ان تاریخی واقعات کو بیان کرنا اس بات
کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ حق کتاب ہے اور آپ اللہ کے رسول برحق
ہیں۔
تِلْكَ
الرُّسُلُ
شروع میں ابنیاء
علیہم السلام اور ان کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔ درجات کا یہ فرق کسی
نبی یا رسول کی کمی یا کوتاہی کا غماز نہیں ہے بلکہ ان کے منصب اور ذمہ داری میں
فرق اور اہمیت کے پیش نظر ہے۔ دنیا میں ہی صدقہ و خیرات کرکے اپنی عاقبت سنوار لو
ورنہ قیامت کے دن کوئی سودے بازی، تعلقات یا سفارش کام نہیں دے گی۔ قرآن کریم کی
آیات میں مرتبہ اور مقام کے اعتبار سے آیت الکرسی سب سے بڑی آیت ہے۔ یہ سورہ
البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے اور اس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس میں توحید
کو بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ جاوید
اور کائنات کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس پر اونگھ یا نیند کا غلبہ نہیں ہوتا۔ آسمان
و زمین اور ان میں پائی جانے والی ہر چیز کا وہی مالک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس
کے سامنے سفارش کرنے کی کوئی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں سے پہلے کیا تھا اور
ان کے بعد میں کیا ہوگا؟ اس سب کچھ کا علم اسی کے پاس ہے۔ یہ لوگ اتنا ہی جانتے ہیں
جتنا وہ انہیں سکھاتا ہے۔ اس کے علم کی معمولی مقدار کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس
کی کرسی کی وسعت اور بڑائی کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمان و زمین پر حاوی ہے اور آسمان
و زمین کی حفاظت، اس کے لئے کسی قسم کی مشکلات کا باعث نہیں ہے۔ وہ نہایت بلند ہے
اور عظمتوں کا مالک ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہوچکی ہے، لہٰذا دین اسلام کو قبول
کرنے کے لئے کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ جو باطل قوتوں سے بغاوت کرکے اللہ کا
وفادار بن گیا تو ا س نے ایسی مضبوط کڑی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اللہ
تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور انہیں کفر کی ظلمتوں سے ایمان کے نور کی طرف
لاتا ہے جبکہ کافروں کے دوست طاغوت (باطل قوتیں) ہیں جو انہیں ایمان کی روشنی سے
کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنیں
گے۔ اس کے بعد تین تاریخی واقعات بیان کئے جو توحید پر دلالت کرتے ہیں اور مرنے کے
بعد زندہ ہونے کے قرآنی عقیدہ کو اجاگر کرتے ہیں۔ پہلا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام اور نمرود کا ہے جس کا دعویٰ تھا میں مار بھی سکتا ہوں اور موت سے بچا بھی
سکتا ہوں لہٰذا میں اس کائنات کا رب ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اللہ
تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتے ہیں تم مغرب سے نکال کر دکھائو۔ اس پر وہ لاجواب
ہوکر حیران رہ گیا۔ دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے کہ کسی سفر میں ان کا
گزر ایک تباہ شدہ بستی پر ہوا جس کے باشندے لاشوں کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ انہوں
نے ان کی تباہ شدہ کیفیت اور بوسیدگی اور اللہ تعالیٰ کی دوبارہ پیدا کرنے کی قوت
پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی سواری پر موت طاری کرکے سو سال کے
بعد زندہ کیا۔ سواری کی بوسیدہ ہڈیوں کو ان کے سامنے جمع کرکے ان پر گوشت پوست چڑھایا
اور ان کے زاد سفر (کھانے) کو سو سال تک باسی ہونے سے بچا کر ترو تازہ رکھا اور اس
طرح اپنی قدرت کا انہیں عملی مشاہدہ کرادیا۔ تیسرا واقعہ: ابراہیم علیہ السلام نے
مرنے کے بعد زندہ ہونے کی کیفیت کا مشاہدہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے
اطمینان قلب کے لئے مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کو عملی شکل میں دیکھنا چاہا تو
اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ مانوس کریں، پھر
انہیں ذبح کریں اور بالکل قیمہ بنا کر ان کے ذرات آپس میں خلط ملط کرکے مختلف
پہاڑیوں پر رکھ کر ان پرندوں کا نام لے کر پکاریں۔ ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے
پر ہر پرندے کی ہڈی سے ہڈی، پَر سے پَر، خون سے خون سب مل ملا کر اپنی اصلی شکل و
صورت میں بن کر ان کے پاس آگئے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی زبردست قوت اور حکمت کا عملی
مشاہدہ ہوگیا۔
صدقہ و خیرات
کے حوالے سے آیت نمبر ۲۶۱ سے آیت نمبر ۲۶۶
تک چار مثالیں بیان کی ہیں، دو مثالیں اخلاص کی اور دو مثالیں ریاء کاری کی۔ اخلاص
کے ساتھ اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین میں ایک بیج
ڈال کر سینکڑوں دانے حاصل کرلینا اور ریاء کار کا صدقہ ایسا ہے جیسے چٹان پر غلہ اگانے
کی ناکام کوشش۔ اچھی بات کہنا اور درگزر کردینا ایسی مالی امداد سے بہتر ہے جس میں
ریا کاری اور احسان جتلانے کا عنصر شامل ہو۔ اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کی دوسری
مثال زرخیز خطۂ زمین میں باغ لگانے کی ہے جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہو اور
دکھاوے کے طور پر خیرات کرنے کی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی جوانی میں محنت کرکے
بہترین باغ اور فصل اگائے مگر اس کے بڑھاپے میں جب وہ محنت کے قابل نہ رہے، وہ اور
اس کے چھوٹے چھوٹے بچے غلہ اور پھلوں کے محتاج ہوں تو یہ باغ کسی ناگہانی آفت سے
تباہ ہوکر رہ جائے، اسی طرح ریا کار کا اجرو ثواب آخرت میں تباہ ہوجاتا ہے اور
اسے کچھ نہیں ملتا۔
اللہ کے عطا
کردہ مال و جائیداد اور زمین سے حاصل شدہ غلوں اور فصلوں میں سے پاکیزہ چیزیں اللہ
کے نام پر دینی چاہئیں، گھٹیا اور بیکار چیزیں جب اپنے لئے پسند نہیں کرتے تو اللہ
کے نام پر کیوں دیتے ہو؟ صدقہ و خیرات کرنے پر شیطان غربت اور پیسہ کی کمی سے
ڈراتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اور گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتے ہیں۔
حکمت و دانائی اللہ کی عطاء ہے جسے حکمت مل جائے اسے بہت بڑی خیر میسر آگئی۔ کھلے
عام اور چھپا کر موقع محل کے مطابق دونوں طرح صدقہ کرتے رہنا چاہئے۔ دین دار غرباء
جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے مانگتے نہیں ہیں وہ آپ کے مالی تعاون کے
زیادہ مستحق ہیں۔ عدل و انصاف پر مشتمل معاشی نظام کے لئے رہنما اصول، غریب اور
چھوٹے تاجروں کے لئے زہر قاتل اور تجارت کے لئے ’’رِستا ہوا
ناسور‘‘ یہودی ذہنیت کی بدترین پیداوار ’’سودی نظام‘‘ کے تباہ کن عواقب و نتائج سے آیت نمبر ۲۷۵
سے آیت نمبر ۲۸۰ تک خبردار کرتے ہوئے سختی کے ساتھ اس سے باز رہنے کا
حکم دیا ہے اور سود خوری سے بچنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا اور سودی نظام کو جاری
رکھنے کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ یوم احتساب یعنی قیامت
کی یاد دہانی کراتے ہوئے آیت نمبر ۲۸۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس دن سے ڈرو جب تم
اللہ کی طرف لوٹائے جائوگے اور ہر شخص کو نیک و بد اعمال کا پورا پورا حساب دینا
ہوگا۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یہ قرآن کریم کی نزول کے اعتبار سے آخری
آیت ہے اور اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس دنیا سے ارتحال کا اشارہ بھی
موجود ہے۔ آیت نمبر ۲۸۲ کمیت کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت
ہے۔ اسے آیۃ المداینہ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ادھار لین دین کے قرآنی ضوابط، ادائیگی
کی مدت کا تعین، تحریری وثیقہ کی تیاری اور گواہوں کی موجودگی وغیرہ کا بیان ہے۔
رہن رکھنے کے احکام کا تذکرہ ہے۔ آسمان و زمین کے اندر سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے،
وہ دلوں کے ظاہر اور خفیہ تمام بھیدوں سے واقف ہے ۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن پر رسول
اور مؤمنین سب کا ایمان ہے۔ اللہ پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء
و رسل پر بلا تفریق ایمان لانا ضروری ہے۔ اپنی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کا
عاجزانہ اعتراف کرکے اپنی کمی و کوتاہی پر اللہ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے۔ اللہ
تعالیٰ انسانی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے لہٰذا شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ
انسانی وسعت و قدرت کے اندر ہی ہیں اور ہر شخص کو اپنے برے بھلے اعمال کا نتیجہ
بھگتنا ہوگا اس لئے فدویانہ طریقہ پر اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے
درخواست کریں۔ اے ہمارے رب! ہماری غلطی اور کمی پر ہماری گرفت نہ فرما۔ ہماری طاقت
سے زیادہ ہم پر ذمہ داریاں نہ ڈال، ہمارے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ فرما۔ رحم
فرما، تو ہی ہمارا مولا ہے، کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔ آیت نمبر ۲۸۵
اور ۲۸۶ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں ان کی بہت فضیلت ہے۔
حدیث شریف میں ہے جس نے رات کو سوتے وقت یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی
ہیں۔
No comments:
Post a Comment