سورۃ المائدہ
یہ سورہ مدنی
ہے ایک سو بیس آیات اور سولہ رکوعات پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں تشریعی مسائل، چوری،
ڈاکہ اور قتل یا زخمی کردینے کے حوالہ سے قانون سازی کی گئی ہے اور قیامت کا تذکرہ
ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرف بھی روئے سخن رکھا گیا ہے۔ سورہ کی ابتداء میں ہر قسم
کے عہود و مواثیق کی پاسداری کا حکم ہے خصوصاً کلمہ شہادت پڑھنے کی وجہ سے ایمانی
بنیادوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں نبھانے کا حکم ہے۔ ایک موقع پر
کافروں نے مسلمانوں کے جانور چھین لئے اور احرام باندھ کر بیت اللہ کی طرف عمرہ کے
لئے چل دیئے۔ مسلمانوںنے ان پر حملہ آور ہوکر ان سے اپنے جانور واپس لینے کا
ارادہ کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالتِ احرام میں کسی پر حملہ درحقیقت شعائر
اللہ کی توہین ہے۔ کسی کی دشمنی میں اس حد تک تجاوز درست نہیں کہ تم ظلم و زیادتی
پر اتر آئو۔ تمہیں تو نیک کام میں تعاون اور برے کام میں عدم تعاون کا راستہ اختیار
کرنا چاہئے۔ حلال و حرام جانوروں کا تذکرہ اور حالت احرام میں شکار سے ممانعت کا بیان
ہے۔
حجۃ الوداع کے
موقع پر دین اسلام کے مکمل اور اللہ کے پسندیدہ نظام حیات ہونے کا اعلان ہے۔
پرندوں، چوپایوں اور درندوں کی مدد سے شکار کے لئے اصول و ضوابط وضع کئے گئے ہیں۔
اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم اور ان کی خواتین سے نکاح کے جواز کا بیان ہے۔ پھر طہارت
حاصل کرنے کے لئے وضو اور تیمم کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل کا تذکرہ ہے۔ شرعی
احکام میں آسانی اور سہولت کے پہلو کو مدنظر رکھنے کی نوید سنائی گئی اور نِعَم
خداوندی پر شکر ادا کرنے کی تلقین ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر کافروں نے حملہ آور ہونے
کا پروگرام بنایا اللہ تعالیٰ نے انہیں مرعوب کرکے حملہ کرنے سے باز رکھا، اس
انعام خداوندی کا شکر اداکرنے اور توکل کا اہتمام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے
بعد اہل کتاب کا تذکرہ آیت نمبر ۱۲ سے ۸۲ تک ستر آیتوںمیں کیا گیا ہے اور اس ضمن میں
فوجداری معاملات کے لئے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ یہودیوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ
ان کے آباء و اجداد کو عہدو میثاق کا پابند بنا کر ان کے بارہ قبیلوں پر بارہ
نگران مقرر کئے گئے تھے مگر انہوں نے عہد شکنی کی جس کی وجہ سے وہ سنگدل ہوگئے اور
اللہ کے کلام میں ردو بدل اور خیانت کے جرم میں مبتلاء ہوگئے۔ عیسائیوںکو بھی عہدو
پیمان کا پابند بنایا گیا مگر وہ بھی عہد شکنی کے مرتکب ہوئے جس کی نحوست اور برے
اثرات نے ان کے اندر بغض و عداوت کی خطرناک بیماری پیدا کردی۔ اہل کتاب سے خطاب ہے
کہ تمہارے پاس ہم نے اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہاری خیانتوں پر تمہیں مطلع کرتا
ہے اور نور ہدایت او رکتاب مبین لے کر آیا ہے۔ اس کی اتباع سے تم سلامتی کے راستے
پاسکتے ہو اور کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن
ہوسکتے ہو۔
عیسائیوں کے ’’الوہیت مسیح‘‘ کے عقیدہ کی مدلل تردید اور یہودیوں کے من گھڑت عقیدہ
پر گرفت ہے کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہوتے تو اللہ انہیں عذاب میں کیوں
مبتلاء کرتے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جہاد کے
لئے تیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ نے تمہیں ’’مذہبی اور سیاسی
قیادت‘‘ کے منصب پر فائز فرماکر تمہارے خاندان میں انبیاء
و رسل اور بادشاہ وملوک پیدا کئے۔ تمہیں بیت المقدس کو عمالقہ کے قبضہ سے آزاد
کرانے کے لئے پیش رفت کرنی ہوگی۔ اللہ نے تمہیں فتح و کامرانی سے ہمکنار کرنے کا
وعدہ کررکھا ہے مگر وہ لوگ اپنی بزدلی اور طبعی خباثت کے پیش نظر جہاد سے پہلوتہی
کرنے لگے اور عمالقہ کی طاقت و قوت سے مرعوب ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے
لگے کہ آپ اپنے رب کے ساتھ مل کر جہاد کرکے بیت المقدس کو آزاد کرالیں ہم تو
اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں
کے باہمی اختلاف اور ان کی قربانی کا تذکرہ کرکے بتایا ہے کہ خیر و شر کی قوتیں
روز اول سے باہم دست و گریبان ہیں۔ اللہ تعالیٰ متقی کی قربانی قبول کیا کرتے ہیں۔
قابیل دنیائے انسانیت کا پہلا قاتل ہے، جس نے اپنی ضد اور عناد کی خاطر اپنے بھائی
ہابیل کو قتل کردیا۔ دنیا میں قیامت تک جتنے قتل ہوں گے ان کا گناہ قاتل کے ساتھ
ساتھ قتل کی طرح ڈالنے والے پہلے قاتل قابیل کو بھی ملے گا اور یہ ضابطہ بھی بیان
کردیا کہ انسانی جان اللہ کی نگاہ میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ ایک انسان کے
قتل کا گناہ پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور کسی انسانی جان کو بچالینے کا
اجر و ثواب پوری انسانیت کو بچالینے کے برابر ہے۔ اسلامی حکومت کے باغی اور ڈاکو
چونکہ معاشرہ میں بدامنی اور فساد پھیلانے کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے انہیں ملک بدر
کردیا جائے یا مخالف سمت کے ہاتھ پائوں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا کر قتل کرکے ان کے
وجود سے اسلامی سرزمین کو پاک کردیا جائے۔ یہ تو دنیا کی رسوائی ہے۔ آخرت میں بھی
ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔ البتہ گرفتاری سے پہلے اگر تائب ہوکر اپنی اصلاح کرکے ان
جرائم سے باز آنے کی ضمانت دیں تو انہیں معافی دی جاسکتی ہے۔ اہل ایمان کو تقویٰ
پر کاربند رہنے، اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنانے اور
جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہوکر فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ چور کے
ہاتھ کاٹنے کا حکم دے کر چوری کے سدباب کا بہترین انتظام کیا ہے کہ ہاتھ کٹ جانے
کے بعد وہ چور بھی اس جرم سے تائب ہوجائے گا اور دوسرے چوروں کے لئے بھی عبرت کا
سامان پیدا ہوجائے گا۔ یہودیوں کے اعتراضات کرنے اور حضور علیہ السلام پر ایمان نہ
لانے سے آپ دل گرفتہ اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں اور یہودیوں
کی نازیبا حرکات سے آپ پریشان اور غمگین نہ ہوں۔ یہ لوگ عادی مجرم ہیں۔ اللہ کے
کلام میں تحریف، جھوٹ اور حرام خوری ان کی گھٹی میں داخل ہے۔ یہ ایسے لاعلاج مریض
ہوچکے ہیں کہ اللہ ا نہیں پاک و صاف کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دنیا میں ذلت اور آخرت میں
عذاب عظیم ان کا مقدر بن چکا ہے، پھر فوجداری قانون بیان کردیا کہ جان کے بدلہ
جان، آنکھ کے بدلہ آنکھ، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت ہوگا، لیکن اگر کوئی
متأثر فریق درگزر اور معافی کا فیصلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے گناہوں کی
معافی کا وعدہ کررہے ہیں۔ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی مخالفت کی نوعیت دیکھتے
ہوئے ان پر عملدرآمد نہ کرنے والے کافر و فاسق ہیں۔ قرآن کریم سابقہ کتب سماویہ
کی تعلیمات کا جامع اور محافظ ہے لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا گیا
کہ یہود و نصاریٰ کی خواہش کے مطابق قرآنی نظام سے انحراف نہ کیا جائے۔ ہر قوم کے
لئے اللہ نے نظام حیات وضع کیا ہوا ہے۔ ہم چاہتے تو دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ہی
مذہب کا پابند بنادیتے مگر دنیادار الامتحان ہے اس میں کئے جانے والے پر ہی اخروی
جزاء و سزا کا انحصار ہے۔ اس لئے ہر شخص کو اعمال صالحہ میں سبقت لے جانے کی کوشش
کرنی چاہئے۔ انسانوں کے وضع کردہ قوانین جاہلیت پر مبنی ہوتے ہیں جو فسق و فجور کی
ترویج کا باعث ہوتے ہیں۔ یقین و ایمان کے حاملین کے لئے اللہ سے بہتر قانون سازی
کون کرسکتا ہے؟ یہود و نصاریٰ سے تعلقا ت ایمان کے منافی ہیں۔ اہل کتاب سے دوستی
چاہنے والے قلبی مریض ہیں۔ دنیا کا عارضی نفع و نقصان ان کے پیش نظر ہے۔ یہ سمجھتے
ہیں کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت سے ہماری معشیت تباہ ہوجائے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ
اہل ایمان کو غلبہ عطا فرماکر ان کے معاشی حالات درست فرماسکتے ہیں، جو ان کے حمایتیوں
کے لئے ندامت و شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔
اگر کوئی
اسلامی نظام حیات کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے تو اس سے اسلام کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں
پڑتا۔ اللہ ایسے لوگوں کو منظر سے ہٹاکر کسی دوسری قوم سے اپنے دین کاکام لے سکتے
ہیں۔ وہ لوگ آپس میں محبت کرنے والے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے
والے، کافروں کے لئے سختی کرنے والے، جہاد فی سبیل اللہ میں سردھڑ کی بازی لگانے
والے اور کسی کی طعن و تشنیع کو خاطر میں لانے والے نہیں ہوں گے۔ اہل کتاب کو
مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ صرف ان کا اللہ پر ایمان اور آسمانی نظام پر غیر متزلزل
یقین ہے۔ مسلمان قابل اعتراض نہیں بلکہ قابل اعتراض تو وہ بدترین لوگ ہیں، جن پر
اللہ کی لعنت اور غضب ہوا اور سزا کے طور پر انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں
مسخ کردیا گیا۔ یہ لوگ اس حد تک ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اللہ پر
اعتراض کرنے سے بھی نہیں چوکتے، یہ کہتے ہیں کہ (نعوذباللہ) اللہ بخیل ہے۔ اس کے
ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہاتھ تو ان کے بندھے ہوئے ہیں اور انکی زبان درازی کی وجہ سے
ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہوئے ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے اپنے
بندوں پر خرچ کرتا ہے۔ یہ لوگ بدزبانی اور سرکشی میں روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
یہ قوموں کو لڑانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان جنگوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتے
رہتے ہیں۔ پھر حضور علیہ السلام کو تبلیغ رسالت کے فریضہ کی ادائیگی میں اپنی تمام
صلاحیتیں صرف کرنے کا حکم ہے اور دشمنانِ اسلام سے آپ کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی
ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے بعد نصاریٰ کے عقیدۂ تثلیث پر رد اور مریم وعیسیٰ علیہما
السلام کی الوہیت کا بطلان واضح کرکے بتلایا ہے کہ عیسیٰ کیسے خدا ہوسکتے ہیں وہ
تو اپنی والدہ مریم کے ہاں پیدا ہوئے اور وہ دونوں کھانے پینے کے محتاج ہیں۔ بنی
اسرائیل کے ملعون قرار پانے کی وجہ ممنوعات و محرمات سے اجتناب نہ کرنا ہے۔ نصاریٰ
کے مقابلہ میں مشرکین اور یہود مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دشمنی رکھتے ہیں۔
وَإِذَا سَمِعُواْ
ابتداء میں عیسائیت
کے منصف مزاج اور معتدل طبقہ کی تعریف کی گئی ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ قریش
مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حضور علیہ السلام کی اجازت سے مسلمانوں کی ایک جماعت
ہجرت کرکے عیسائیوں کے ملک حبشہ چلی گئی۔ مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور غلط بیانی
کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کو مسلمانوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی۔ نجاشی نے انہیں طلب
کرکے سوالات کئے۔ مسلمانوں کے نمائندہ جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب میں قرآن کریم کی
سورہ مریم پڑھ کر سنائی۔ نجاشی اور اس کے ساتھیوں پر قرآن کریم سن کر رقت طاری
ہوگئی۔ ان کی آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبانے لگیں اور کلام الٰہی سے متأثر ہوکر
انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور مسلمانوں کو سرکاری مہمان کے طور پر اپنے ملک میں
ٹھہرانے کا اعلان کردیا۔ ان کی اور اس قسم کے دوسرے عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ
قرآن کو سنتے ہیں تو حق کو پہچان کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاکر اسلام کی حقانیت کے گواہ بن جاتے ہیں۔ اس کے
بعد حلال و حرام کے حوالے سے کچھ گفتگو اور انتہا پسندی کی مذمت کی گئی ہے۔ قسم کی
اقسام اور کفارہ کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شراب اور جوے (قمار) کی حرمت کا حتمی فیصلہ
دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شیطان اس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے افراد میں نفرتیں پیدا
کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کو ام الخبائث کے
استعمال سے باز آجانا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عمر نے جب فہل انتم
منتہون (کیا تم باز نہیں آئوگے؟) کا قرآنی جملہ سنا تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا
کر بے اختیار پکار اٹھے انتہینا یا ربنا (اے ہمارے رب! ہم باز آگئے)
حالت احرام میں
شکار کی ممانعت اور اس کی جزا کا بیان ہے۔ محرم کو مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی
ہے کہ سمندر میں حجاج کے قافلہ کو ضرورت پیش آسکتی ہے۔ کعبۃ اللہ کی مرکزیت اور
بقاء انسانیت کی علامت ہونے کا بیان ہے۔ خبیث اور طیب میں امتیاز برتنے کی تلقین
ہے کہ کسی چیز کی قلت و کثرت اچھائی کا معیار نہیں ہے۔ حلال و حرام، مطیع و عاصی،
بھلا اور برا کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ بیجا سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مختلف
حوالوں سے جانور مخصوص کرنے کی مذمت کی گئی ہے کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی یا
اس قسم کے ناموں سے جانوروں کے تقدس کی اسلامی تعلیمات میںکوئی گنجائش نہیں ہے۔
قرآنی تعلیمات کے خلاف آباء و اجداد کی ناجائز تقلید سے منع کیا گیا ہے۔ فساد
زدہ معاشرہ میں تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود اگر امر بالمعروف و
نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہے تو
گمراہ اور نافرمانوں کے غلط اثرات سے محفوظ رہوگے۔ قیامت کے دن کے بے لاگ محاسبہ کی
یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ اس ہولناک دن میں انبیاء علیہم السلام بھی جوابدہی
کے لئے اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے صاحب عزیمت
رسول جنہیں مردوں کو زندہ کرنے، بینائی اور برص کے لاعلاج مریضوں کو چنگا کرنے اور
مٹی کے جانوروں میں اللہ کے حکم سے روح پھونکنے کے معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ انہیں
بھی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ عیسائیوں نے تمہیں
اور تمہاری والدہ کو اپنا معبود کیوں بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت عجز و انکساری سے عرض
کریں گے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نے تو آپ کی توحید و الوہیت کی تبلیغ
کی تھی۔ میرے بعد لوگوں نے اپنی طرف سے میری اور میری والدہ کی عبادت شروع کردی تھی۔
یہ آپ کے بندے ہیں آپ ان کے ساتھ جو بھی معاملہ فرمائیں، معاف کریں یا عذاب دیں یہ
آپ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آج کے دن سچائی کے علمبردار ہی عظیم
الشان کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکیں گے۔ ان کے لئے دائمی طور پر باغات اور بہتی نہریں
تیار ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہیں وہ اللہ سے راضی ہیں۔
اس سے پہلے
مائدہ (دسترخوان) کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے کہنے
لگے: اے عیسیٰ! اپنے رب سے کہئے کہ ہمیں جنت کے کھانے کھلائے۔ اللہ نے ایک
دسترخوان اتارا، جس میں انواع و اقسام کے جنتی کھانے تھے۔ خیانت کرنے اور بچا کر
رکھنے سے انہیں روکا گیا تھا، مگر انہوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ
نے خیانت کے مرتکب افراد کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کردیا۔
No comments:
Post a Comment