وہ اس
زمین پہ رہتی تھی آسماں کی طرح
کوئی
نہیں ہے یہاں آج میری ماں کی طرح
اب
آنسوؤں کی کتابیں کبھی نہ لکھوں گا
کہ ڈال
دی ہے نئی نالہ و فغاں کی طرح
اُسی کے
دم سے یہ مٹی کا گھر منور تھا
وہ جس
کی قبر چمکتی ہے کہکشاں کی طرح
وہ خود
بھی لڑتی تھی سورج سے روز میرے لئے
ہے اُس کی
یاد بھی اک ابرِ مہرباں کی طرح
طویل
رات کا مسکن جو آج لگتا ہے
یہی
مکان تھا اک روز لامکاں کی طرح
اب اُس
کی موت پہ خود موت بھی پریشاں ہے
کہ اس
طرح سے پڑی عمر جاوداں کی طرح
جہاں کو
آج بھی اُس کی بڑی ضرورت ہے
رہے گی
اب وہ محبت کی داستاں کی طرح
ترس رہا
ہوں میں پانی کی بوند بوند کو اب
حیات ہو
گئی اک دشتِ بے اماں کی طرح]
No comments:
Post a Comment