بھول
افق پر
دھند لکے، شفق میں الاؤ گھٹاؤں میں شعلے، چمن میں ببول
بہاروں
پہ صرصر کے گھمبیر سائے
نظاروں
کے دامن میں نکہت بسائے
دلوں پر
اُداسی، دماغوں میں الجھن، خیالوں میں تلخی، نگاہیں ملول
ہر اک
سمت ویرانیوں کا نزول
جلاتا
رہا میں اندھیروں میں شمعیں، کھلاتا رہا خار زاروں میں پھول
شعاعوں
سے تاریکیوں کو اُجالے
خرابوں
پہ تعمیر کا عکس ڈالے
بڑے زخم
کھا کر مگر مسکرا کر کیے زندگی نے حوادث قبول
اڑاتی
پھری دشت و صحرا کی دھول
وہی وقت
کی سست رفتار گردش وہی موت کی رہگزاروں کا طول
وہی چار
سو دہکے دہکے الاؤ
وہی
گلستاں میں خزاں کا رچاؤ
وہی
چاند تاروں پہ کہنہ دھند لکے وہی ظلمتوں کا پرانا اصول
مگر کون
سمجھے یہ کس کی تھی بھول؟
No comments:
Post a Comment