آگ
مفلسو!
اپنے مقدّر کی شکایت نہ کرو
اِس سے
انسان کے ایمان میں فرق آتا ہے
ہم تو
ناچیز سے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسی
بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے
کتنے
گمراہ و گنہگار ہوئے جاتے ہو
کیا
کہا؟ “خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں
دمبدم
آگ کے بے رحم لپکتے شعلے
اپنے
بوسیدہ مکاں راکھ کیے دیتے ہیں
خاک ہی
خاک ہوئی جاتی ہے دنیا اپنی
اور اس
آتش و ظلمات کے سیلاب میں ابھی
اسی
پندار اسی شان سے استادہ ہیں
کیا خدا
صرف غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے”
ٹھیک
کہتے ہیں مگر خام عقائد والو
ہم تو
تقدیر کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسی
بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے
اور پھر
اپنی شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے
وہی
ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment