احتساب
سوچ
مفلوج ہے حالات کے زندانوں میں
عقل پر
تلخ حوادث کے گراں تالے ہیں
آگہی
سرود خموش
منجمد
شعلۂ ہوش
ذہن پر
بھولے فسانوں کے گھنے جالے ہیں
کوئی
آہٹ بھی نہیں دل کے سیہ خانوں میں
قہقہے
وقت کے خوشرنگ شبستانوں میں
کتنی
دلدوز و غمیں آہوں کے رکھوالے ہیں
آرزو
جامِ طرب
آبرو
زہر بلب
کتنے ہی
ناگ خزانوں نے یہاں پالے ہیں
کتنے
پیکر ہیں جو ڈھل جاتے ہیں ایوانوں میں
زندگی
رینگتی ہے موت کے ویرانوں میں
انقلابات
نے انداز بدل ڈالے ہیں
رات دن
شام و سحر
کس کو
جرأت ہو مگر
ناگ خود
ہی تو خزانوں نے یہاں پالے ہیں
آگ
پھولوں نے بکھیری ہے گلستانوں میں
No comments:
Post a Comment