بدل گیا
ہے وہ فرسودہ عاشقی کا نظام
چُنا ہے
مُجھ کو نئے عاشقوں نے اپنا امام
جہاں سے
سیکھ کے آتے ہیں گفتگو دریا
وہیں سے
مجھ پہ اتارا گیا یہ درد کلام
کھُلا
ملا تھا وہ آنکھوں کا میکدہ شب بھر
نہ پوچھ
کیسے چڑھائے ہیں ہم نے جام پہ جام
نہ ڈھنگ
سے کبھی عقل و خِرد کی بات سنی
نہ
اختیار کیا ہے رہِ جنوں کو تمام
جو ترے
ذکر سے لمحوں کا پیٹ بھرتے ہیں
اُن
احمقوں میں نمایاں کھڑا ہے اب مرا نام
اب آ کے
بات کرے ہم سے وصل کا سورج
بہت سنا
ہے شبِ ہجر کا سیاہ کلام
جو دھوپ
بن کے مری زندگی میں پھیل گئی
ہمیشہ دل
میں رہے گا اب اُس نظر کا قیام
جہاں پہ
دل میں بھڑکتے تھے آگ کے شعلے
وہاں سے
دور نہ تھا آنسوؤں کا صدر مقام
No comments:
Post a Comment