گھر کے باہر گھر کے اندر جو بھی ہو
دیکھتی ہیں سب بچاری کھڑکیاں
دھوپ میں کرتی ہیں شامل چاندنی
ایسی دیکھی ہیں لکھاری کھڑکیاں
جن سے آتی ہے دلوں میں روشنی
ہم نے کھولی ہیں وہ ساری کھڑکیاں
دھوپ کے آنگن میں کھلتی ہیں تمام
جانتا ہوں میں تمہاری کھڑکیاں
چاند ہو سورج ہو یا بادِ نسیم
ہار جاتی ہیں کنواری کھڑکیاں
بند رکھنا ان کا اب ممکن نہیں
کھول دو آ کر ہماری کھڑکیاں
ہاتھ پھیلائے کھڑی ہیں سامنے
یہ ہمیشہ سے بھکاری کھڑکیاں
لوٹ جاتی ہے جنہیں چھوکر صبا
ہائے وہ قسمت کی ماری کھڑکیاں
لطف اٹھا لیتے ہیں دروازے تمام
کرتی ہیں دن رات خواری کھڑکیاں
مجھ کو لے جاتی ہیں خوابوں کے نگر
اس لئے لگتی ہیں پیاری کھڑکیاں
No comments:
Post a Comment