چاند
تارے ناچتے ہیں دف بجا کر خواب میں
یوں وہ
سینہ سے لگا ہے مسکرا کر خواب میں
جاگتے
میں جس کو چھونا بھی نہیں ممکن مجھے
چوم
لیتا ہوں میں اُس کو روز جا کر خواب میں
کیسی
کیسی اونچی دیواروں کا پہرہ توڑ کر
اُس کو
لایا ہوں زبردستی اٹھا کر خواب میں
وہ جو
دن کی روشنی میں سامنے آتا نہیں
بیٹھ
جاتا ہے وہ میرے ساتھ آ کر خواب میں
اب نہیں
اٹھے گی اس جانب کوئی میلی نظر
میں نے
رکھا ہے اُسے سب سے چھپا کر خواب میں
آنسوؤں
کی داستانیں قہقہوں کے رتجگے
سب کہوں
گا تجھ سے پہلو میں بٹھا کر خواب میں
نیند سے
رہتا ہوں میں دست و گریباں رات دن
جب چلا
جاتا ہے تو صورت دکھا کر خواب میں
دو قدم
بھی ساتھ چلنے سے جو گھبراتا تھا میں
آج اُسے
لایا ہوں باتوں میں لگا کر خواب میں
تجھ سے
کب کہتا ہوں ظالم ساتھ رہنے کے لئے
یونہی آ
کے ایک دو بوسے دیا کر خواب میں
جس کی
جانب دیکھنا بھی ان دنوں ممنوع ہے
اس کو
میں ہر رات لاتا ہوں بھگا کر خواب میں
وہ جو
کوشش سے بھی ہونٹوں پر کبھی آتی نہیں
قید سے
اُن ساری باتوں کو رِہا کر خواب میں
دن میں
جن سے بات کرنے کی تجھے مہلت نہیں
ایک دو
پل کے لئے اُن سے ملا کر خواب میں
جس سے
ملنے کا کوئی امکاں کوئی صورت نہ ہو
اُس کو
لے آتا ہوں میں اپنا بنا کر خواب میں
جانے
کیسے دھول وہ آنکھوں میں سب کی جھونک کر
ہونٹ
رکھ دیتا ہے ان ہونٹوں پہ آ کر خواب میں
صبح دم
ظالم سے جا کر داد کا طالب ہوا
رات اُس
کو یہ غزل اپنی سنا کر خواب میں
No comments:
Post a Comment