احمد فراز" کی ایک خوبصورت نظم:
............"بھلی سی ایک شکل تھی"............
بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ
کہ حسن عام ہو نہ دیکھنے میں تام سی
نہ یہ
کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ
ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سا سفر لگے
کوئی
بھی رت ہو اسکی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ
گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ
مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ
رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
کوئی
بھی رت ہو اسکی چھب، فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ
گرمیوں کی چھاؤں تھی، وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ
مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ
رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
نہ
ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے
نہ
اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے ۔ ۔ ۔
نہ
اختلاط میں وہ رم کہ بد مزہ ہوں خواہشیں
نہ اس
قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں
نہ
عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس
قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو
کبھی
تو بات بھی خفی، کبھی سکوت بھی سخن
کبھی
تو کشت زاعفراں، کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے
ایک عمر ہے معاملات دل کی بھی
وصال
جان فزا تو کیا ،فراق جانگسسل کی بھی
سوایک
روز کیا ہوا ، وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں
عشق کو امر کہوں ،وہ میری بات سے چڑ گئی
میں
عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر
بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے
شجر
ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گل رہیں
نہ
ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
محبتوں
کی وسعتیں ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک
در سے نسبتیں سگان با وفا میں ہیں
میں
کوئی پینٹنگ نہیں کہ ایک فریم میں رہوں
وہی جو
من کا میت ہو اسی کہ پریم میں رہوں
تمہاری
سوچ جو بھی ہو میں اس مزاج کی نہیں
مجھے
وفا سے بیر ہے یہ بات آج کی نہیں
نہ اس
کو مجھ پر مان تھا، نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
جب عہد
ہی کوئی نہ ہو، تو کیا غم شکستگی
سو
اپنا اپنا راستہ خوشی خوشی بدل دیا
وہ
اپنی راہ چل پڑی ، میں اپنی راہ چل دیا
بھلی
سی ایک شکل تھی بھلی سی اس کی دوستی
اب اس
کی یاد رات دن نہیں مگر کبھی کبھی
No comments:
Post a Comment