سوال ایک تھا لیکن ملے جواب بہت
پڑھی ہے میں نے محبت کی یہ کتاب بہت
گئی بہار تو پھر کون حال پوچھے گا
کرو نہ چاہنے والوں سے اجتناب بہت
یہ آسمان و زمیں سب تمہیں مبارک ہوں
مرے لئے ہے یہ ٹوٹا ہوا رباب بہت
یہاں پہ دیکھو ذرا احتیاط سے رہنا
ملے ہیں پہلے بھی اس خاک میں گلاب بہت
میں جانتا ہوں انہیں وقت کے حواری ہیں
جو لوگ خود کو سمجھتے ہیں کامیاب بہت
رہِ جنوں میں اکیلا نہیں میں خوار و
زبوں
مری طرح سے ہوئے ہیں یہاں خراب بہت
کسی نے کاسۂ سائل میں کچھ نہیں ڈالا
سمندروں سے میں کرتا رہا خطاب بہت
کھلی ہوئی ہیں دکانیں کئی نگاہوں کی
طلب ہو دل میں تو پینے کو ہے شراب بہت
خدا کرے وہ مرا آفتاب آ نکلے
دلوں میں آگ لگاتا ہے ماہتاب بہت
سنا کے قصّہ تمہیں کس لئے اداس کریں
کہ ہم پہ ٹوٹے ہیں اس طرح کے عذاب بہت
تلاشِ یار میں نکلے تھے جاں سے ہار گئے
خبر نہ تھی کہ وہ ظالم ہے دیر یاب بہت
کبھی وہ بھول کے بھی اس طرف نہیں آیا
اگر چہ آتے ہیں آنکھوں میں اُس کے خواب
بہت
اسی لئے ترے کوچہ میں اب وہ بھیڑ نہیں
کہ لطف کم ہے تری آنکھ میں عتاب بہت
یہاں رہے گا ترے اقتدار کو خطرہ
کہ آتے رہتے ہیں اس دل میں انقلاب بہت
کسی کو بھیج کے احوال تو کیا معلوم
مرے لئے تو یہی لطف ہے جناب بہت
No comments:
Post a Comment