گھوڑا
گلی میں ایک شام
جب دھوپ
مر رہی تھی
شام
آہیں بھر رہی تھی
گزرے
ہوئے دنوں کے چہرے بجھے ہوئے تھے
آنکھیں
دھواں دھواں تھیں
غنچے
جلے ہوئے تھے
دور
آسماں کے دل میں خنجر گڑے ہوئے تھے
ہر دن
چلا گیا تھا ہر رات سو گئی تھی
ایسے
میں تم نے آ کر اس دل کو گدگدایا
انجان
مسرتوں نے دروازہ کھٹکھٹایا
برسوں
کی وحشتوں کو اک دم قرار آیا
دیکھا
تجھے تو ہر سو پھر سے بہار آئی
چہرہ تو
جانتا ہوں کیا نام بھی وہی ہے
آنکھوں
کو میرے دل سے کیا کام بھی وہی ہے
اے
اجنبی شناسا
برسوں
سے پھر رہا تھا میں اس طرح سے پیاسا
اے پہلی
مسکراہٹ
تھوڑا
سا دے دلاسہ
دے دے
مجھے اجازت خود میں تجھے ملا لوں
اس بند
کارخانے کا کام پھر چلا لوں
No comments:
Post a Comment