پانیوں
کو جانے کیوں
پانیوں
کو جانے کیوں
اس طرح
کی جلدی ہے
یہ زمیں
کے چہرہ پر
کس نے
خاک مَل دی ہے
آفاق کے
کنارے
سورج کے
بہتے خوں سے گلنار ہو گئے ہیں
وہ دھوپ
کی صراحی ٹوٹی ہوئی پڑی ہے
پھر شام
کی سیاہی دہلیز پر کھڑی ہے
کیا رات
ہو گئی ہے
ڈرتے
تھے جس سے سارے
وہ بات
ہو گئی ہے
مہجور
وادیوں میں
متروک
راستوں پر
گمنام
جنگلوں میں
روتی
ہوئی شعاعیں اک خواب بُن رہی ہیں
ظلمت کی
داستاں کا اک باب سن رہی ہیں
تیری
تلاش میں پھر نکلیں گے چاند تارے
مجھ سے
نہ جانے کتنے پھرتے ہیں مارے مارے
No comments:
Post a Comment