بھولے سے بھی آئے نہ کوئی چاہنے والا
اس شہر میں ہے حسن کا دستور نرالا
اک رات کی دہشت کا ٹھکانہ ہے مرا دل
تم ڈھونڈنے آئے ہو کہاں دن کا اجالا
میرا تو چلو ٹھیک ہے مجرم ہوں تمہارا
ان چاند ستاروں کو یہاں کس نے اچھالا
اس طرح سے ٹوٹیں گے اگر روز یہاں دل
نکلے گا بہت جلد محبت کا دِوالہ
کرتے ہیں بہت آپ حسینوں کی وکالت
اے کاش! پڑے ان سے کبھی آپ کو پالا
بس دل پہ حکومت کا طریقہ اسے آئے
محبوب حقیقت میں نہ گورا ہے نہ کالا
ممکن ہی نہ تھی اور ترے ناز کی تردید
میں نے تو بہت چاہا بہت دل کو سنبھالا
نظموں سے تو کھنچتی نہیں اس حسن کی
تصویر
لکھوں گا اب اس پر کوئی پُر زور مقالہ
یہ سبزۂ خط حسن کی تنسیخ نہیں ہے
دیکھا نہیں کیا تم نے کبھی چاند کا
ہالہ
اس طرح سے رو رو کے نہ کر عشق کی تذلیل
اب جا کے کسی روز اسے گھر سے اٹھا لا
دل اٹھ کے ہر اک پیاس کی تردید کرے گا
آئے گا جہاں بھی ترے ہونٹوں کا حوالہ
اب لوٹ کے آنا وہاں اچھا نہیں لگتا
جس گھر سے مجھے تو نے ہے اس طرح نکالا
لگتا ہے یہ دل اب بھی تجھے بھولا نہیں
ہے
نکلا ہے تری یاد میں اک اور رسالہ
پھر اٹھ کے یہاں سے وہ کہیں جا نہیں
سکتا
اک بار جو ہونٹوں سے لگا لے یہ پیالہ
اس طرح گنوا ڈالو گے ہر ایک کی توقیر
ہر ایک کی خدمت میں نہ آداب بجا لا
No comments:
Post a Comment