نکلو گے مرے دل سے تو جل جاؤ گے فوراً
اس دھوپ کی بستی میں کہاں چاند کا مسکن
تم اٹھ کے ستاروں سے کہاں لڑنے چلے ہو
میں نے تو کہی تھی فقط اک بات مذاقاً
جس بات پہ کل دیدہ و دل ایک ہوئے تھے
دونوں میں ہوئی آج اُسی بات پہ اَن بَن
دنیا میں بھی اب چین سے رہنے نہیں دیتا
جنّت سے بھی اک روز نکالا مجھے جبراً
آنکھوں سے نہ ہونٹوں سے نہ ہاتھوں سے
کھُلا تو
سورج کا ہے دالان کہ مہتاب کا آنگن
مل جائے گا آ جاؤ تمہیں بھی کوئی گوشہ
دل اتنی تمنّاؤں کا پہلے سے ہے مدفن
تاروں کی طرح آؤ کرو تم بھی تماشہ
پھر رات ہوئی آیا ہے پھر درد پہ جوبن
یہ سوچ کے اب کوئی شکایت نہیں کرتا
دنیا میں محبت پہ ہمیشہ سے ہے قدغن
اب آ کے ترے سامنے مبہوت کھڑا ہوں
حیراں ہوں میں انگشت بدنداں ہے مرا فن
مشکل ہے بتانا بھی چھپانا بھی ہے مشکل
ٹوٹا ہے کچھ اس طور سے وہ پیار کا
بندھن
اس دل کا کوئی ٹھیک نہیں اتنا نہ پھولو
تم پر بھی کسی روز چڑھا لائے گا سو تن
معلوم ہے اب سارے زمانہ کو پتہ ہے
ہاں تم سے تو کہتا نہیں یہ بات میں
قصداً
میں نے بھی بہت اچھی طرح سوچ لیا ہے
اب تم پہ لُٹا دوں گا کسی روز یہ تن من
یہ سارا تو اک عمرِ گذشتہ کا ہے قصہ
اب اُس سے مرا کوئی تعلق نہیں قطعاً
رو رو کے اُسے ہم نے کئی بار بلایا
پھر لوٹ کے آیا نہیں اک بار بھی بچپن
مجھ پر وہ کبھی جان کے یہ ظلم نہ کرتا
معلوم ہے مجھ کو وہ بڑا نیک ہے طبعاً
No comments:
Post a Comment