میں سوچتا تھا کسی دن تجھے بھلا دوں گا
یہ انتظار کے سارے دئے بجھا دوں گا
تمہارے بعد بھی رونق لگی ہوئی ہے یہاں
ذلیل شہر کو اب آگ میں لگا دوں گا
ہمیشہ آتے ہیں اس سے مری زمیں پہ عذاب
اس آسماں کو یہاں سے کہیں ہٹا دوں گا
ہمارے بیچ زمانہ اگر کبھی آیا
یہاں پہ خون کی میں ندیاں بہا دوں گا
دھواں یہ دھول یہ ہر سمت منہ بسورتے
لوگ
تمہیں یہاں سے میں جانے کا مشورہ دوں
گا
غرور حسن تمہارا ہو یا انا میری
یہ ساری بیچ کی دیواریں میں گرا دوں گا
مری طرح سے اُسے تم بھی بھول جاؤ گے
ملول مت ہو وہ نسخہ تمہیں بتا دوں گا
یہ دل کی ساری زمیں اب تری امانت ہے
یہاں جو نقش ہیں تیرے سوا مٹا دوں گا
تری تلاش رہے گی میں اب رہوں نہ رہوں
حدودِ جاں سے نکل کر تجھے صدا دوں گا
نہیں سنوں گا میں اس دل کی اور بات
کوئی
گراب یہ بولا تو اُس کا گلا دبا دوں گا
یہ خود سے آگ میں جلنا ہے سوچ لو پیارے
میں شاعری کے طریقے تمہیں سکھا دوں گا
فقیرِ حُسن ہوں کچھ دے دلا کے رخصت کر
ہر ایک بوسہ پہ دل کھول کے دعا دوں گا
No comments:
Post a Comment