دریاؤں کی گپ شپ کا نشہ ایسا چڑھا ہے
سنتا نہیں اب کوئی سمندر کی کہانی
لے ڈوبی یہ سورج سے ملاقات کی خواہش
دو پل میں ہوئی ختم گلِ تر کی کہانی
یہ ہنستی حکایت تو زمانہ کے لئے ہے
تم آؤ سنو اب مرے اندر کی کہانی
یوں ناز سے اس خاک پہ چلنا نہیں اچھا
تم نے بھی سُنی ہو گی سکندر کی کہانی
مہتاب کی وادی سے نئے پھول چرا کر
لکھوں گا کسی دن رخ انور کی کہانی
تاریخ ہے اک چشمِ جفا کار کی یارو
تلوار کا قصّہ ہے نہ خنجر کی کہانی
شاہوں سے کبھی کوئی تعلق نہیں رکھا
لکھی ہے ہمیشہ دل ابتر کی کہانی
دنیا میں حسینوں کی کمی اب بھی نہیں ہے
لکھی ہے ہمیشہ اسی دلبر کی کہانی
کب تک یہ زمیں گھومے گی اس طرح خلا میں
کب تک میں سناؤں گا ستمگر کی کہانی
پاگل ہوا جس کے لئے اک رات سمندر
لکھنی ہے اُسی چاند سے پیکر کی کہانی
سننی ہے تو اس فن میں قلم طاق ہے میرا
شعلوں کی زباں میں کسی اخگر کی کہانی
دل کیسے ہوا سُن کے یہ آمادۂ وحشت
صحرا کا بیاں ہے نہ مرے گھر کی کہانی
جیتے ہوئے لوگوں نے کیا اور بھی مایوس
سنتا کسی ہارے ہوئے لشکر کی کہانی
No comments:
Post a Comment