مٹی سے اٹھا کر مجھے خورشید بنایا
گو اہل نہ تھی اس کی کسی طور مری خاک
تم روزِ ازل دے کے وچن بھول گئے ہو
سہتی ہے ابھی تک ستم و جور مری خاک
اس قید کی لعنت سے نکل جاؤں کسی طور
دن رات لگاتی ہے بڑا زور مری خاک
یہ وسعتِ افلاک تو میں ناپ چکا ہوں
اب ڈھونڈنے جائے گی کہاں اور میری خاک
یوں خاک میں تنہا وہ مجھے چھوڑ گیا ہے
اس بات یہ کرتی ہے بہت شور مری خاک
دیکھا ہے یہاں چاروں طرف ایک خلا ہے
حیراں ہوں میں اب جائے گی کس اور مری
خاک
یہ پیار سے تکتی ہوئی آنکھیں نہ رہیں
گی
آ جاؤ کہ پہنچی ہے لبِ گور مری خاک
تو تازہ جہانوں میں کہیں اپنے مگن ہے
پھرتی ہے یہاں اب بھی کریکور* مری خاک
میں کس کے لئے گھر سے یہاں دور پڑا ہوں
کرتی نہیں اس بات پہ کیوں غور مری خاک
جب چاروں طرف تیرے سوا کوئی نہیں تھا
پھر ڈھونڈتی پھرتی ہے وہی دور مری خاک
مجبور ہے مقہور ہے مردود ہے لیکن
ہاتھوں سے نہ چھوڑے گی تری ڈور مری خاک
واں سے تو دیا تو نے مجھے دیس نکالا
اب یاں سے نہ لے جائے کوئی چور مری خاک
یوں میری نگاہوں سے اگر دور رہو گے
اس طرح تو بھٹکے گی یہاں اور مری خاک
آوارہ ستاروں کی طرح کیسے رہوں گا
پابندِ محبت ہے بہر طور مری خاک
بادل سے سنوں گا کوئی بارش کی کہانی
ہو جائے گی پھر اُس سے شرابور مری خاک
میں رفعتِ افلاک سے مرعوب نہیں ہوں
کنعاں ہے مدائن ہے کہیں ثور مری خاک
کَرِیکور
پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہے در بدر
No comments:
Post a Comment