’’ویسٹ لینڈ‘‘
ترے
بغیر سرد موسموں کے خوشگوار دن اُداس ہیں
فضا میں
دُکھ رچا ہُوا ہے!
ہَوا
کوئی اُداس گیت گنگنا رہی ہے
پُھول
کے لبوں پہ پیاس ہے
ایسا
لگتا ہے
ہَوا کی
آنکھیں روتے روتے خشک ہو گئی ہوں
صبا کے
دونوں ہاتھ خالی ہیں
کہ شہر
میں ترا کہیں پتہ نہیں
سانس
لینا کِس قدر محال ہے!
اُداسیاںِ__اُداسیاں
تمام
سبز سایہ دار پیڑوں نے
ترے
بغیر وحشتوں میں اپنے پیرہن کو تار تار کر دیا ہے
اب کسی
شجر کے جسم پر قبا نہیں
سُوکھے
زرد پتے
کُو بہ
کُو تری تلاش میں بھٹک رہے ہیں
اُداسیاںِ___اُداسیاں
مرے
دریچوں میں گلابی دُھوپ روز جھانکتی ہے
مگر اب
اس کی آنکھوں
وہ
جگمگاہٹیں نہیں
جو تیرے
وقت میں زمین کے صبیح ماتھے پر
سُورجوں
کی کہکشاں سجانے آتی تھیں
زمین
بھی مری طرح ہے!
ترے
بغیر اس کی کوکھ سے اب بھی
کوئی
گُلاب اُگ نہ پائے گا
زمین
بانجھ ہو گئی ہے
اور مری
رُوح کی بہار آفریں کوکھ بھی!
میری
سوچ کے صدف میں
فن کے
سچے موتی کس طرح جنم لیا کریں
کہ میں
سراپا تشنگی ہوں
اور
دُور دُور تک____وصالِ اَبر کی خیر نہیں !
میرے
اور تیرے درمیان
پانچ
پانیوں کے دیس میں
(کچے
گھڑے بھی تو میری دسترس سے دُور ہیں )
میں شعر
کس طرح کہوں
میری
سوچ کے بدن کو،تُو،نمو تو دے
میں ترے
بغیر’’ویسٹ لینڈ‘‘ ہوں !
No comments:
Post a Comment