بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
تمام
لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھا
بچھڑنے
والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
برہنہ
شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں
وہ رات
تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا
تمھارے
شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگر
جہاں پہ
دھوپ کھڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
سمیٹ
لیتی شکستہ گلاب کی خوشبو
ہوا کے
ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر ہی نہ تھا
میں
اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی
کہ ترے
شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا
کہاں سے
آتی کرن زندگی کے زنداں میں
وہ گھر
ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
بدن میں
پھیل گیا شرخ بیل کی مانند
وہ زخم
سوکھتا کیا، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا
ہوا کے
لائے ہوئے بیج پھر ہوا میں گئے
کھلے
تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا
قدم تو
ریت پہ ساحل نے بھی رکھنے دیا
بدن کو
جکڑے ہوئے صرف اک بھنور ہی نہ تھا
No comments:
Post a Comment