سرطان مرا ستارا کب تھا'
یوں
حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
سرطان
مرا ستارا کب تھا
لازم
تھا گزرنا زندگی سے
بِن زہر
پیئے گزارا کب تھا
کچھ پل
مگر اور دیکھ سکتے
اشکوں
کو مگر گوارا کب تھا
ہم خود
بھی جُدائی کا سبب تھے
اُس کا
ہی قصور سارا کب تھا
اب اور
کے ساتھ ہے تو کیا دکھ
پہلے
بھی وہ ہمارا کب تھا
اِک نام
پہ زخم کھل اٹھے تھے
قاتل کی
طرف اشارا کب تھا
آئے ہو
تو روشنی ہوئی ہے
اس بام
پہ کوئی تارا کب تھا
دیکھا
ہوا گھر تھا پر کسی نے
دُلہن
کی طرح سنوارا کب تھا
|
No comments:
Post a Comment