متفرق اشعار
خُوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موجِ ہَوا کے ہاتھ میں اس کا سُراغ ہے
ہمیں خبر ہے ،ہَوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا ، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں
میں جب بھی چاہوں ، اُسے چھُو کے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا
ہمارے عہد میں شاعر کے نرخ کیوں نہ بڑھیں
امیرِ شہر کو لاحق ہُوئی سخن فہمی
گھر کی ویرانی کی دوست
دیواروں پر اُگتی گھاس
حال پوُچھا تھا اُس نے ابھی
اور آنسو رواں ہو گئے
لو! میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں ، اب تم رخصت
ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے،لیکن دل کا کہنا کیا
No comments:
Post a Comment