اُس کے
کنول ہاتھوں کی خوشبو
کتنی
سبز آنکھوں نے پینے کی خواہش کی تھی
کتنے
چمکیلے بالوں نے
چُھوئے
جانے کی آس میں خود کو، کیسا کیسا بکھرایا تھا
کتنے
پُھول اُگانے والے پاؤں
اُس کی
راہ میں اپنی آنکھیں بچھائے پھرتے تھے
لیکن وہ
ہر خواب کے ہاتھ جھٹکتی ہُوئی
جنگل کی
مغرور ہَوا کی صُورت
اپنی
دُھن میں اُڑتی پھرتی
آجِ___مگر
سُورج نے
کھڑکی سے جھانکا
تو اُس
کی آنکھیں ،پلکیں جھپکنا بُھول گئیں
وہ
مغرور سی، تیکھی لڑکی
عام سی
آنکھوں ، عام سے بالوں والے
اِک
اکھّڑ پردیسی کے آگے
دو زانو
بیٹھی
اُس کے
بوٹ کے تسمے باندھ رہی تھی
No comments:
Post a Comment