سورۃ القصص
مکی سورت ہے۔
اٹھائیس آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔ پوری سورت ہی قصۂ موسیٰ و فرعون کے
مختلف پہلوئوں کو اجاگر کررہی ہے۔ اس لئے اس کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ ہے۔ باطل کا انداز کہ وہ حق کے ماننے والوں کو فرقوں اور
دھڑوں میں تقسیم کرکے ان کی طاقت توڑتا ہے اور پھر ان پر بلا روک ٹوک مشقِ ستم
کرتا ہے۔ فرعون اپنی فسادی ذہنیت کے پیش نظر اپنی ماتحت رعایا کو مختلف گروہوں میں
تقسیم کرکے ان کے لڑکوں کو قتل کرادیتا اور لڑکیوں کو زندہ رکھ کر ان سے خدمت
لیتا۔ اللہ نے کمزوروں اور ضعیفوں پر احسان کرکے انہیں دنیا کی قیادت پر فائز کرنے
اور فرعون کو اس کی غلطیوں اور مظالم کی سزا دینے کا فیصلہ کرکے موسیٰ علیہ السلام
کو بنی اسرائیل میں پیدا کیا۔ فرعون کے گھر میں سرکاری خرچہ پر ان کی پرورش کرائی۔
پھر موسیٰ علیہ السلام کا ایک فرعونی فوجی پر حملہ اور اسے جان سے ماردینے کا
واقعہ شہر مدین میں روپوشی کا زمانہ گزارنے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی صحبت سے
فیضیاب ہونے اور ان کی خدمت کرنے کا تذکرہ پھر ان کی صاحبزادی سے عقد نکاح اور وطن
واپسی کے وقت راستے میںنبوت سے سرفرازی اور فرعون کے دربار میں حق و صداقت کا ڈنکا
بجانے کی ذمہ داری کو ذکر کرنے کے بعد بتایا ہے کہ فرعون کے مطلوب ترین ملزم کو اس
کے دربار میں برملا چیلنج کرنے کا حوصلہ عطاء فرما کر اسے مرعوب کرکے موسیٰ علیہ
السلام کی حفاظت کی۔ فرعون کی بچکانہ حرکت کہ اونچی عمارت کی چھت سے آسمانی معبود
پر تیر اندازی کرکے اپنی بڑائی کے جذبہ کی تسکین اور پھر خدائی پکڑ کا عبرتناک
منظر کہ جن دریائوں اور محلات و قصور پر اسے فخر تھا انہیں میں رہتے ہوئے اسے غرق
کرکے اس کی جائیداد و حکومت بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کے حوالہ کرکے بتایا کہ
اقتدار و دولت آنی جانی ہے۔ اور اللہ اس کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کیا کرتے ہیں،
امم ماضیہ کے واقعات کا ایک نبی امی کی زبان سے تذکرہ یہ اس کے نبی برحق ہونے کی
واضح دلیل ہے۔پھر اہل حق اور اہل باطل کی ذہنیت اور ان کی عملی استعداد کو بیان
کرکے واضح کیا کہ قوموں کی ہلاکت و بربادی ان کے آسمانی نظام سے بغاوت و سرکشی کا
نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ ہدایت کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ان کافروں
کا کہنا کہ اگر ہم حق پر عمل پیرا ہوئے تو دنیا کی کافر قومیں ہمیں اچک کر لے
جائیں گی بالکل بے وزن بات ہے۔ یہ لوگ حرم محترم کے باشندے ہیں جو امن کے لئے
مثالی خطہ ہے اور ہر قسم کے پھل اور مصنوعات دنیا کے کونے کونے سے انہیں مہیا کی
جاتی ہیں پھر یہ اس قسم کی بے سروپا باتیں یہ کیوں کرتے ہیں؟ پھر قیامت کا دن اور
معبودان باطل کی بے بسی اور بے رحم محاسبہ کا تذکرہ اور اس حقیقت کا بیان کہ اس دن
ایمان اور اعمال صالحہ والے ہی کامیاب و کامران ہوسکیں گے۔ پھر مخلوقات کی تخلیق و
تربیت کے تمام اختیارات اللہ کے پاس ہونے اور سینوں میں چھپے اور خفیہ بھیدوں سے
واقف ہونے کا اعلان ہے۔ پھر اس کی حکیمانہ تربیت کے مظہر کو واضح کیا گیا کہ رات
کا اندھیرا سکون و آرام کے لئے، دن کا اجالا کام کاج اور روزی کمانے کے لئے بنایا
ہے۔ اگر اللہ رات لمبی کرکے اجالے کی آمد کو روک دے یا دن لمبا کرکے اندھیرے کا
راستہ بند کردے تو کون ہے جو تمہارے آرام اور نقل و حرکت کی ضروریات کا انتظام
کرسکے۔
حضرت موسیٰ
علیہ السلام اپنے دور نبوت میں ہر محاذ پر باطل کے خلاف سرگرم رہے اور منکرین
آخرت کے ساتھ ’’چو مُکھی‘‘ لڑائی لڑتے
رہے۔ ان کا یہ کردار فرعون و ہامان کے مقابلہ اور ’’الملائ‘‘ کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے، سرمایہ داری کے نمائندہ
قارون کی سرزنش و فہمائش اور قوم کی بے اعتدالیوں پر صبر و تحمل کی شکل میں سامنے
آتا ہے، قارون سے موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو قرآن کریم نے نہایت حسین پیرائے
میں یہاں بیان فرمایا ہے۔ قارون، موسیٰ علیہ السلام کا رشتہ دار اور ایک غریب
انسان تھا۔ کاروبار میں ایسی برکت اور ترقی ہوئی کہ وہ بے بہا خزانوں کا مالک بن
گیا۔ اس کی چابیاں سنبھالنے کے لئے پہلوانوں کی ایک جماعت کا انتظام کرنا پڑتا
تھا۔ اس سے یہ کہا گیا کہ تکبر و اتراہٹ کوئی اچھی صفات نہیں ہیںجس طرح اللہ نے
مال و دولت کی فراوانی عطاء فرماکر تم پر احسان کیا ہے تم غریبوں، مسکینوں کے ساتھ
تعاون کرکے مخلوق خدا پر احسان کا مظاہرہ کرو اور اپنے مال و دولت کی بنیاد پر
فتنہ و فساد پھیلانے سے باز رہو، مگر اس نے اللہ کی عطاء و احسان کو تسلیم کرنے کی
بجائے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ سب مال ودولت میرے تجربہ اور کاروباری سوجھ بوجھ
کا نتیجہ ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب اسے فہمائش
کی تو اس نے انتقامی کارروائی کے طور پر ایک فاحشہ بدکار عورت کو پیسے دے کر موسیٰ
علیہ السلام کی کردارکشی کرنے کے لئے بدکاری کا الزام لگوانے کی کوشش کی، جس پر
موسیٰ علیہ السلام نے بد دعا دی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قارون کو سوچنا
چاہئے کہ اس سے پہلے کتنے بدکردار افراد اور قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں وہ طاقت و
قوت میں اس سے بھی زیادہ تھے۔ ایک مرتبہ قارون غرور و نخوت کا پیکر بن کر خوب بن
سنور کر نکلا لوگ اس کے وسائل کی فراوانی اور شان شوکت کو دیکھ کر بہت متأثر ہونے
لگے۔ اللہ نے اس حالت میں اس پر اپنا عذاب مسلط کرکے زمین کو حکم دیا کہ اس بدبخت
کو نگل جائے اور اس طرح اسے اس کے مال ودولت اور محلات سمیت زمین دھنسادیا گیا۔ اس
کے حشم و خدم اور حمایتی اسے اللہ کی پکڑ سے نہ بچاسکے اور دنیا پر یہ واضح ہوگیا
کہ مالی وسعت و آسائش بھی اللہ کے حکم سے ملتی ہے اور رزق میں تنگی اور کمی بھی
اللہ کے حکم سے آیا کرتی ہے۔
آخرت کی
زندگی میں کامیابی کے لئے تکبر اور فساد جیسے رذائل سے پاک ہونا ضروری ہے، کیونکہ
بہتر انجام متقیوں کے لئے مخصوص ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کے وقت
آپ اپنے وطن مؤلوف کے چھوٹ جانے پر رنجیدہ خاطر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے
ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی وجہ سے آپ پر یہ پریشانی آرہی ہے، آپ تسلی رکھیں،
ہم آپ کو اپنے وطن میں باعزت واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم آپ کی
تمنائوں اور کوششوں سے آپ کو نہیں ملا بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے یہ
نعمت غیر مترقبہ آپ کو عطا فرمائی ہے لہٰذا آپ منکرین کے ساتھی اور مددگار نہ
بنیں۔
اللہ کے ساتھ
کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کیجئے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، ہر چیز فانی
ہے، اسی اللہ کے فیصلے کائنات میں نافذ ہوتے ہیں اور تم سب لوٹ کر اسی کے پاس
جائوگے۔
No comments:
Post a Comment