ن۔ کی کہاوتیں
( ۲۲ ) نورُُ علیٰ نور
:
یعنی مکمل نور، نور ہی نور۔ بہت
روشن۔ تعریف کے لئے کہا جاتا ہے۔
(۲۳) نو دو گیارہ ہونا
:
یعنی بھاگ کھڑے ہونا، رفو چکر ہو جانا۔ یہ نہیں معلوم کہ بھاگ
جانے سے نو دو گیارہ کی کیا مناسبت ہے۔
( ۲۴ ) نو سو چوہے کھا کے بلی
حج کو چلی :ْ
یعنی دُنیا بھر کی برائیاں کر چکے تو اب بڑھاپے میں
پارسائی کی سوجھی ہے۔ انسان آخر عمر میں مذہب کی جانب مائل ہوتا ہے
اور اپنے پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ کہاوت اسی جانب
اشارہ کر رہی ہے۔
(۲۵) نہ تین میں ، نہ
تیرہ میں :
جس شخص کا شمار کہیں نہ ہو
یعنی اس کی کوئی اہمیت نہ ہواس کے لئے یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۲۶) نہ نو من تیل ہو گا، نہ
رادھاؔ ناچے گی :
پرانا قصہ ہے کہ ایک مشہور رقاصہ
ُاس وقت تک رقص کا مظاہرہ نہیں کرتی تھی جب تک چراغاں کا معقول انتظام
نہیں ہو جاتا تھا۔ نو من تیل بے شمار چراغوں کی علامت ہے۔کوئی اگرکسی
کام کے لئے ایسی شرط لگائے جس کا پورا کرنا ممکن نہ ہو تو یہ کہاوت دُہرائی جاتی
ہے یعنی نہ تو اِن کی یہ فضول شرط پوری ہو گی اور نہ یہ کام کر کے دکھائیں
گے۔
( ۲۷ ) نہ رہے بانس، نہ بجے
بانسری :
کام کی وجہ باقی نہ رہے تو اس کی ضرورت بھی ختم ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح
جیسے اگر بانس ختم ہو جائیں تو بانسری نہیں بن سکتی۔ اگر کسی چیز کی
بنیاد ہی ختم کر دی جائے تو یہ کہاوت بولتے ہیں۔
( ۲۸) نیکی برباد، گناہ
لازم :
یعنی نیکی کو تو سب لوگ بھول گئے اور الزام اُلٹا ہمارے سر رکھ دیا۔ دُنیا
کا یہی دستور ہے کہ نیکی کو کوئی یاد نہیں رکھتا جب کہ بدنامی بخشنے کے لئے
ہر ایک آمادہ رہتا ہے۔
No comments:
Post a Comment