تجھ تک
آنے کے لئے ہے یہ نشانی کافی
مسکراتے
ہوئے اک شاخ پہ دو رنگ کے پھول
دیکھو
یہ جوش نمو کیسی قیامت شے ہے
لب آہن
پہ کھلا دیتی ہے یوں زنگ کے پھول
کوئی
موسم ہو انہیں اس سے سروکار نہیں
ہنستے
رہتے ہیں ہر اک حال میں یہ سنگ کے پھول
آئینہ
دیکھ کے یوں ناز سے شرماؤ نہیں
دیکھنا
اور بھی ہوں گے کہیں اس ڈھنگ کے پھول
چاہنے
والوں کی یہ فوج بکھر جائے گی
خواب ہو
جائیں گے اک روز یہ اورنگ کے پھول
صرف
عارض کے گلابوں کا نہیں مجھ پہ طواف
چومنا
فرض ہے میرے لئے ہر رنگ کے پھول
ان کے
آنگن میں بھی بربادی سدا راج کرے
بوتے
رہتے ہیں جو ہر وقت یہاں جنگ کے پھول
آؤ سب
مل کے کریں موت کی ایسی تیسی
توڑتی
رہتی ہے بیدرد یوں ہر رنگ کے پھول
No comments:
Post a Comment