تفاوت
تو کیوں
ہے اُداس مسکرا دے
کیوں
تجھ کو غمِ وفا نے گھیرا
زنگارِ
الم سے دُور ہی رہ
آئینہ
صفت جمال تیرا
کتنی ہی
سیاہ شب ہو لیکن
کب چاند
پہ چھا سکا اندھیرا
کب موجۂ
روشنی تھمی ہے
دریاؤں
پہ دھُول کب جمی ہے
میں
کیسے ہنسوں کو دردِ ہستی
ہے میرے
شعور کا تقاضا
حالات
کی دھوپ میری قسمت
آلام کی
ریگ میری دنیا
میں
سایۂ نخل کو بھی ترسوں
صحرا کی
طرح وجود میرا
صحراؤں
میں پھول کب کھلے ہیں
ہم
دونوں میں کتنے فاصلے ہیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment