فراق کی
تصویر دیکھ کر
اک سنگ
تراش جس نے برسوں
ہیروں
کی طرح صنم تراشے
آج اپنے
صنم کدے میں تنہا
مجبور
نڈھال زخم خوردہ
دن رات
پڑا کراہتا ہے
چہرے پہ
اجاڑ زندگی کے
لمحات
کی ان گنت خراشیں
آنکھوں
کے شکستہ مرقدوں میں
روٹھی
ہوئی حسرتوں کی لاشیں
سانسوں
کی تھکن بدن کی ٹھنڈک
احساس
سے کب تلک لہو لے
ہاتھوں
میں کہاں سکت کہ بڑھ کر
خود
ساختہ پیکروں کو چھو لے
یہ زخم
طلب یہ نامرادی
ہر بت
کے لبوں پہ ہے تبسم
اے تیشہ
بد ست دیوتاؤ
انسان
جواب چاہتا ہے
No comments:
Post a Comment