معبود
بہت
حسین ہیں تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر
ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
ہم ایک
درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے
عزیز مرا فن مجھے جما ل ترا
مگر
تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم
تری
نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے
تجھے
خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری
لہو
اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے
تجھے
خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن
نہیں ہے اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں
گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں
قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
No comments:
Post a Comment