چھوڑ کر
وہ جہاں چلا آیا
تجھ سے
ملنے یہاں چلا آیا
یہ تو
سوداگروں کی بستی ہے
سوچتا
ہوں کہاں چلا آیا
عقل مجھ
کو نہیں خرید سکی
ہو کے
میں بد گماں چلا آیا
بچھ گئی
ہے زمیں ضیافت کو
کون یہ
میہماں چلا آیا
پھر
فضاؤں سے وجد برسے گا
پھر وہی
نغمہ خواں چلا آیا
ڈھونڈنے
کس کو ان خلاؤں میں
نور کا
کارواں چلا آیا
کون یوں
رات کے اندھیرے میں
لے کے
یہ کہکشاں چلا آیا
پھر
ستاروں کو کون پوچھے گا
گر مِرا
مہرباں چلا آیا
کیوں
زمیں اس طرح ہے گردش میں
کیوں
یہاں آسماں چلا آیا
سُن کے
شہرت تمہاری آنکھوں کی
حلقۂ
میکشاں چلا آیا
دیکھتے
رہ گئے وہ سب طوفاں
کھول کے
بادباں چلا آیا
شرم سے
سرخ ہو گئیں کلیاں
کون یہ
درمیاں چلا آیا
No comments:
Post a Comment