(1919–1999)
ایک ہندوستانی شاعر اصلی نام محمد حیدر
خان تھا اورتخلص خمار۔ 19 ستمبر 1919 کو بارہ بنکی (اودھ) میں پیدا ہوئے۔ نام کے
ساتھ بارہ بنکوی اسی مناسبت سے تھا۔ 19 فروری 1999 کوبارہ بنکی میں انتقال کر گئے۔
بارہ
بنکی اترپردیش (یوپی)کا ایک چھوٹاسا شہر ہے جس نے باکمال فنکار پیدا کیے ہیں۔ ان
میں تین نام تو زبردست اہمیت کے حامل ہیں۔ نصیرالدین شاہ، سروربارہ بنکوی اور خماربارہ بنکوی۔ 1919ء میں پیدا ہونے والے خماربارہ بنکوی کا شماربھی انہی فنکاروں
میں ہوتا ہے جن کی وہ قدرومنزلت نہیں کی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ بہرحال ایک
المیہ ہے۔
برصغیر
پاک و ہند کی فلمی تاریخ میں ایسے شعراء بہت کم ملتے ہیں جو غزل گوئی میں بھی
منفردمقام کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلمی گیت نگاری میں بھی اپنے
نام کا ڈنکا بجایا۔ پاکستان میں اس حوالے سے قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر
نقوی، حبیب جالب اور منیر نیازی کی مثالیں دی جا سکتی ہیںجبکہ ہندوستان میں شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، قمر جلال آبادی اور خماربارہ بنکوی کا شمار ان لوگوں میں
ہوتا ہے جنہوں نے غزل گوئی میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور نغمہ نگاری میں
بھی شہرت حاصل کی۔
خمار باری بنکوی کی غزلیات
پڑھ کر فوری طور پر تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر
ہیں۔ ان کے اشعار میں شعری طرز احساس اور جمالیاتی طرز احساس کا بڑا خوبصورت
امتزاج ملتا ہے لیکن پھر ان کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان کی شاعری کے
کئی رنگ ہیں اور کئی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کا کینوس محدود نہیں رکھا۔ ان
کی قوت مشاہدہ اور قوت متخیلہ شاندار شاعری کے روپ میں قاری کے سامنے آشکار ہوتی
ہے… وہ مشاعروں کے بڑے کامیاب شاعر تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ
مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔
ذیل
میں ہم اپنے قارئین کیلئے خمار بنکوی کی غزلیات کے چند اشعار درج کر رہے ہیں۔ ایسا
نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی ہاتھوں سے انتقام
لیا ارتعاش نے دامن یار سے کوئی نسبت نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیلے ہیں وہ اور
جھنجھلا رہے ہیں مری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات جب دوستوں کی آتی
ہے دوستی کانپ کانپ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حال غم ان کو سناتے جائیے شرط یہ ہے
مسکراتے جائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا دوستوں کو آزماتے جائیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قید رکھا مجھے صیاد نے کہہ کہہ کے یہی ابھی آزاد کیا، بس ابھی آزاد
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا بڑے تپاک سے غم نے مجھے سلام
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا تم کیوں اداس ہوگئے کیا یاد آ
گیا ترے در سے اٹھ کرجدھر جائوں میں چلوں دوقدم اور ٹھہر جائوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک
پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
1999 میں یہ بے مثل شاعر اور گیت
نگار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا… ان کا شعری ورثہ ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔
نمونۂ کلام
مجھ کو شکستِ دل کا مزا یاد آگیا
تم کیوں اداس ہوگئے کیا یاد آگیا
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آگیا
مانگیں گے اب دعا کہ اسےبھول جائیں ہم
لیکن جو وہ بوقتِ دعا یاد آگیا
قیامت کے آنے میں رندوں کو شک تھا
جو دیکھا تو واعظ چلے آرہے تھے
No comments:
Post a Comment