(1918–2002)
کیفی اعظمی (ولادت 19 فروری، 1925ء، وفات 10 مئی، 2002ء) کا پورا نام اطہر حسین رضوی
تھا۔ ان کی پیدائش اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں ہوئی۔ وہ محض گیارہ سال کی عمر میں
شاعری شروع کر چکے تھے۔ ان کی پہلی نظم اس طرح تھی:
مدت
کے بعد اس نے جو الفت سے کی نظر
جی
خوش تو ہوگیامگر آنسو نکل پڑے
اک
تم، کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک
ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑے
کیفی
کی ابتدائی تعلیم روایتی اردو، عربی اور فارسی پر محیط تھی۔
کیفی اعظمی صاحب کا اتر پردیش کے ضلع اور شہربہرائچ سے گہرا تعلق تھا ۔ شمیم اقبال خاں
اور کاوش شوکتی کے ذریعہ مرتب کردہ دیوان شوق طوفان اور شاعر اور ادیب شارق ربانی
کے حوالے سے کئی روزناموں میں اسکا ذکر آتا ہے کہ کیفی کے والد سید فتح حسین رضوی
نانپارہ کے قریب نواب قزلباش کے تعلقہ نواب گنج میں تحصیل دار تھے اور شہر
بہرائچکے محلہ قاضی پورہ میں رہتے تھے،اور اس طرح کیفی کے بچپن کے کئی سال بہرائچ
کی سرزمین پر گزرے ہیں۔اور بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ آناجانا بنا رہا جس میں وہ
اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات کرتے تھے،اور شفیع بہرائچی کی دکان پر ادبی محفل کا
حصہ بنتے تھے۔جہاں بہرائچ کے مشہور شاعر وصفی بہرائچی ،جمال بابا،شوق بہرائچی
،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی،عبرت بہرائچی ،اظہار وارثی وغیرہ شرکت کرتے تھے۔
1943ء
میں کیفی بمبئی اپنے ایک دوست کی دعوت پر آئے تھے۔ یہاں انہیں قریب دس سال کی
جدوجہد کے بعد انہیں بالی وڈ میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
1950ء
کے دہے میں ڈاکٹر منشاء الرحمٰن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے
لیے بلائے گئے تھے۔ شرکت کے لیے 80 روپیے طے ہوئے۔ تاہم اسی زمانے میں کیفی کی بیٹی
شبانہ اعظمی پیدا ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے مگر پیشگی
رقم 40 روپیے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئی۔ کیفی نے منشاء سے خط لکھ کر معذرت
خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔
کیفی
بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی قابل ذکر نظموں میں عورت، اندیشہ، ٹرنک کال،
حوصلہ، تبسم، مکان، بہروپی اور دوسرا بن باس شامل ہیں۔ ان کے مجموعات کلام اس طرح
ہیں:
آخر
شب
آوارہ
سجدے
سرمایہ
بابری
مسجد کے انہدام پر لکھی گئی نظم
رام
بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد
جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقصِ
دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
چھ
دسمبر کو شری رام نے سوچا ہو گا
اتنے
دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
دھرم
کیا ان کا ہے کیا ذات ہے یہ جانتا کون
گھر
نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون
گھر
جلانے کو مرا لوگ جو گھرمیں آئے
شاکاہاری
ہیں مرے دوست تمہارے خنجر
تم
نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے
مرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
پاؤں
سریو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ
نظر آئے وہاں خون کے سارے دھبے
پاؤں
دھوئے بنا سریو کے کنارے سے اٹھے
رام
یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی
کی فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ
دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے
نغمے
ہم
دیوانے ہم پروانے اپنے وطن کے اپنے چمن کے۔
لائی
پھر ایک لغزش مستانہ تیرے چہرے میں۔
آج
کی رات گرم ہوا چلی ہے۔
دل
کی سنو دنیا والو
کرچلے
ہم فدا جان و تن ساتھیوں
ملو
نہ تم تو ہم گھبرائیں، ملو تو آنکھ چرائیں
بچھڑے
سبھی باری باری
ذرا
سی آہٹ ہوتی تو دل سوچتا
ہو
کے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا
وقت
نے کیا کیا حسیں ستم
No comments:
Post a Comment