گہن کو اپنے نوشتہ جان کے ، میں نے
روشنیوں سے سارے ناتے توڑ لیے تھے
رات کو اپنی سکھی مان کے
اپنے سارے دُکھ بس اُس سے کہہ کے
جی ہلکا کر لیتی تھی
شام ڈھلے ، تنہائی کے بازو پر سر رکھے
سو جاتی
اور نیند کے بے آباد جزیروں میں تنہا
اک تھکی ہُوئی خوشبو کی طرح بھٹکا کرتی!
آج بھی میں تنہا ہوں سفر میں
لیکن خود سے پُوچھ رہی ہوں
میرے وجود کے گرد یہ کیسا ہالہ ہے!
یوں لگتا ہے
چادرِ شب شانوں سے سرکتی جاتی ہے
چاند مرے آنچل میں ستارے ٹانک رہا ہے
آج کی رات
نیند پلکوں کی جھالر کو چُھوتی ہوئی
اوس میں اپنا آنچل بھگو کے
مرے دُکھتے ماتھے پہ رکھنے چلی ہے
مگر__آنکھ اور ذہن کے درمیاں
آج کی شب وہ کانٹے بچھے ہیں
کہ نیندوں کے آہستہ رَو، پھول پاؤں بھی
چلنے سے معذور ہیں
ہر بُنِ مو میں اِک آنکھ اُگ آئی ہے
جس کی پلکیں نکلنے سے پہلے کہیں جھڑ
چکی ہیں
اور اب ، رات بھر
روشنی اور کُھلی آنکھ کے درمیاں
نیند مصلوب ہوتی رہے گی!
No comments:
Post a Comment