فقیرانہ روش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار بھی
کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
ہم اپنے زخم آنکھوں
میں لئے پھرتے تھے
لیکن رو کشِ بازار کب
تھے
ہمارے ہاتھ خالی تھے
مگر ایسا نہیں پھر بھی
کہ ہم اپنی دریدہ
دامنی
الفاظ کے جگنو
لئے گلیوں میں آوازہ
لگاتے
“خواب لے لو خواب”
لوگو
اتنے کم پندار ہم کب
تھے
ہم اپنے خواب کیوں
بیچیں
کہ جن کو دیکھنے کی
آرزو میں
ہم نے آنکھیں تک گنوا
دی تھیں
کہ جن کی عاشقی میں
اور ہوا خواہی میں
ہر ترغیب کی شمعیں
بجھا دی تھیں
چلو ہم بےنوا
محرومِ سقف و بام و در
ٹھہرے
پر اپنے آسماں کی
داستانیں
اور زمیں کے انجم و
مہتاب کیوں بیچیں
خریدارو!
تم اپنے کاغذی انبار
لائے ہو
ہوس کی منڈیوں سے درہم
و دینار لائے ہو
تم ایسے دام تو ہر بار
لائے ہو
مگر تم پر ہم اپنے حرف
کے طاؤس
اپنے خون کے سرخاب
کیوں بیچیں
ہمارے خواب بےوقعت
سہی
تعبیر سے عاری سہی
پر دلزدوں کے خواب ہی
تو ہیں
نہ یہ خوابِ زلیخا ہیں
کہ اپنی خواہشوں کے
یوسفوں پر تہمتیں دھرتے
نہ یہ خوابِ عزیزِ مصر
ہیں
تعبیر جن کی اس کے
زندانی بیان کرتے
نہ یہ ان آمروں کے
خواب
جو بےآسرا خلقِ خدا
کو دار پر لائیں
نہ یہ غارتگروں کے
خواب
جو اوروں کے خوابوں کو
تہہ شمشیر کر جائیں
ہمارے خواب تو اہلِ
صفا کے خواب ہیں
حرف و نوا کے خواب ہیں
مہجور دروازوں کے خواب
محصور آوازوں کے خواب
اور ہم یہ دولتِ نایاب
کیوں بیچیں
ہم اپنے خواب کیوں
بیچیں؟
No comments:
Post a Comment