(1922–1993)
سیف الدین سیف (پیدائش: 20 مارچ، 1922ء
- وفات: 12 جولائی، 1993ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، نغمہ
نگار، مکالمہ و کہانی نگار اور فلمساز تھے۔
سیف الدین سیف 20 مارچ، 1922ء کو کوچۂ
کشمیراں امرتسر، برطانوی ہندوستان کے ایک معزز اور ادبی گھرانے میں پیدا
ہوئے۔
ان کے آباء و اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔
والد کا نام خواجہ معراج دین تھا جو ایک نیک صفت اور درویش منش آدمی تھے۔ سیف الدین سیف کی عمر جب ڈھائی برس ہوئی تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ سیف کا بچپن
امرتسر کی گلیوں میں گزرا۔
ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی لیکن
میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ پھر ایم اے او
کالج امرتسر میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر کالج پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی
لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نے علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔
راہ آسان ہو گئی ہوگی
جان پہچان ہو گئی ہوگی
موت سے تیرے درد مندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہوگی
پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہو گئی ہوگی
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خود پرشان ہوگئی ہوگی
ان سے بھی چھین لوگے یاد اپنی
جن کا ایمان ہو گئی ہوگی
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں مری جان ہو گئی ہوگی
مرنے والے پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہوگی
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اُسے سنا کے رؤں وہ
مجھےے سنا کے روئے
مری آرزو کی دنیا دلِ ناتواں کی حسرت
جسے کھو کے شادماں تھےاسے آج پا کے
روئے
تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ
چھپا کے روئے
جو سنائی انجمن میں شبِ غم کی آپ بیتی
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے
روئے
کہیں سیف راستے میں وہ ملیں تو اُن سے
کہنا میں اداس ہوں اکیلا
میرے پاس آ کے روئے
لطف فرما سکو تو آ جاؤ
آج بھی آ سکو تو آ جاؤ
اپنی وسعت میں کھو چکا ہوں میں
راہ دکھلا سکو تو آ جاؤ
اب و دل ہی نہیں وہ غم ہی نہیں
آرزو لا سکو تو آ جاؤ
غم گسارو بہت اُداس ہوں میں
آج بہلا سکو تو آ جاؤ
فرصتِ نامہ و پیام کہاں
اب تم ہی آ سکو تو آ جاؤ
وہ رہی سیف منزلِ ہستی
دو قدم آسکو تو آ جاؤ
وصل کی بات اور ہی کچھ تھی
ان دنوں رات اور ہی کچھ تھی
پہلی پہلی نظر کے افسانے
وہ ملاقات اور ہی کچھ تھی
دل نے کچھ اور ہی لیا مطلب
آپ کی بات اور ہی کچھ تھی
سیف پی کر بھی تشنگی نہ گئی
اب کے برسات اور ہی کچھ تھی
دل سے جاتا نہیں دھواں اب تک
تیرے جلتے ہوئے مکانوں کا
وفات
سیف الدین سیف 12 جولائی، 1993ء کو
لاہور، پاکستان میں انتقال کرگئےاور لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک
ہوئے۔
No comments:
Post a Comment