پنک کلر کی گڑیا
راحت علی
ہاسپٹل کے زچہ بچہ وارڈ کے باہر بڑی بے چینی سے کھڑے تھے ۔ ان کی زندگی میں بہار
آنے والی تھی اور انہیں اس بہار کا بے صبری سے انتظار تھا ۔ الٹراساؤنڈ کے ذریعے
انہیں پہلے ہی پتہ تھا کہ آنے والا کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ننھی پری ہو گی ۔ مگر وہ
خوش تھے ۔ بہت خوش ۔ اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے میں مصروف تھے ۔ معمولی
نوکری تھی ۔ جمع پونجی کچھ خاص نہیں تھی ۔ جو بچی ابھی اس دنیا میں آئی نہیں تھی
اس کے کپڑے خریدے جا چکے تھے ۔ اس کے فیڈر سے لے کر پیمپرز تک ہر چیز خریدی جا چکی
تھی ۔ دوائیوں اور ہسپتال کے سارے اخراجات ملا کر اب تک قریباً بیس ہزار روپے خرچ
ہو چکے تھے ۔ انہوں نے دس ہزار تک کا تخمینہ لگایا ہوا تھا ۔ مزید پیسے ایک دوست
سے ادھار پکڑے تھے ۔
"کوئی بات نہیں خوشی کے موقعوں پر اتنا خرچہ تو ہو ہی
جاتا ہے ۔"
پھر ایک خوش
خبری اور ساتھ ہی نرسوں اور آیاؤں کی قطار ۔ سب کی تھوڑی تھوڑی خدمت ضروری تھی ۔
سب کو مٹھائی کے پیسے دیئے تو ایک ننھی منی سی پری کو گود میں لینا نصیب ہوا ۔ گود
میں لیتے ہی کلیجے کو ٹھنڈ پڑ گئی ۔ پیسے پورے ہو گئے ۔
__________________________
آج راحت علی
صاحب کی بیٹی کی پہلی سالگرہ تھی ۔ زیادہ خرچہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے ۔ آفس سے
کچھ پیسے ایڈوانس پکڑ کر ایک چھوٹی سی پارٹی رکھی تھی ۔ کچھ اپنے رشتے دار، کچھ
بیگم کے اور بس ۔
اس وقت وہ
کھلونوں کی دکان میں کھلونے دیکھنے میں مصروف تھے ۔ محدود پیسوں میں انتخاب اور
بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔ کم قیمت کے کھلونے ان کو پسند نہیں آ رہے تھے ۔ جو پسند
آرہے تھے وہ مہنگے بہت تھے ۔ آخر ایک پنک کلر کی گڑیا پہ ان کی نگاہیں ٹک گئیں ۔
"میری بیٹی کو یہ بہت پیاری لگے گی ۔"
تھوڑی مہنگی تھی مگر بہت پیاری تھی ۔
ایک سال کی
سارہ پنک کلر کے فراک میں اپنی سالگرہ پہ بالکل پری لگ رہی تھی ۔ پنک کلر کی گڑیا
دیکھ کر اس کا چہرہ دمک اٹھا اور راحت علی صاحب کے پیسے پورے ہو گئے ۔
__________________________
سارہ چار
سال کی ہو چکی تھی ۔ اس کی عمر کی تمام بچیوں نے اسکول جانا شروع کر دیا تھا ۔ وہ
بھی فرمائش کرنے لگی تھی ۔
"بابا ! میرا یونیفارم کب لائیں گے ؟"
"آج ہی لاؤں گا بیٹا ۔"
وہ اپنے
دوست کی دکان پہ موجود تھے ۔ کچھ قرضہ درکار تھا ۔ ان کا دوست ان کو کبھی مایوس
نہیں کرتا تھا ۔ بعد میں وہ تھوڑا تھوڑا کر کے چکا دیتے ۔
اگلی صبح ان
کی پیاری بیٹی نئے یونیفارم اور نئی کتابوں کے ساتھ اسکول جا رہی تھی ۔ سارہ بہت
خوش تھی ۔ راحت علی صاحب کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ تھی ۔ ان کے پیسے پورے ہو گئے تھے
۔
__________________________
ہر سال نئے
اخراجات ہر سال نئی کتابیں ۔ پھر سارہ کی ننھی منی خوشیاں پوری کرنے کے لئے اضافی
اخراجات ۔ گھر کے دیگر اخراجات اس کے علاوہ تھے ۔ مگر راحت علی صاحب اپنی بیٹی کی
خوشی دیکھ کر اپنی ہر مجبوری و غربت بھول جاتے تھے ۔ منازل پہ منازل طے کرتی سارہ
آج کالج پہنچ چکی تھی ۔
__________________________
"آپ کی سارہ کو محبت ہو گئی ہے ۔"
بیگم کے جملے نے راحت علی صاحب کو چونکا دیا ۔
"بچیاں کتنی جلدی بڑی ہو جاتی ہیں ۔"
"کون ہے وہ ؟" انہوں نے پوچھا ۔
"غلام مصطفیٰ کا بیٹا احسن ۔ اس کے کالج میں ساتھ پڑھتا
ہے ۔"
بیگم نے نام
بتایا اور راحت علی صاحب کے قدموں تلے سے جیسے زمین نکل گئی ۔ غلام مصطفیٰ ان کے
محلے کا سب سے بدنام شخص تھا ۔ پرائز بونڈ کی پرچیوں کے حرام کاروبار سے پنپنے
والا یہ شخص آج دنیا میں ایک مقام حاصل کر چکا تھا ۔
"سارہ کو پیار سے سمجھا دو ۔ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں
۔" انہوں نے فیصلہ سنایا ۔
__________________________
"بابا
! آپ کون ہوتے ہیں میری قسمت کا فیصلہ کرنے والے ؟ احسن میری محبت ہے اور میں اپنی
محبت پہ کمپرومائز کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ میں نئے زمانے کی پڑھی لکھی لڑکی ہوں ۔
کوئی بھیڑ یا بکری نہیں جسے آپ اپنی مرضی سے کسی بھی کھونٹے سے باندھ دیں گے ۔ اگر
آپ اپنی مرضی سے میری شادی احسن سے نہیں کریں گے تو میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں
گی ۔" سارہ کا جواب دو ٹوک تھا ۔
ایک پڑھی
لکھی بیٹی کے آگے باپ لاجواب ہو چکا تھا ۔ زبان گنگ تھی ۔ سارہ اپنا فیصلہ سنا کر
واپس اپنے کمرے میں جا چکی تھی اور راحت علی صاحب کو ہکا بکا چھوڑ گئی تھی ۔
__________________________
اگلی صبح
لوگوں کو کمرے سے ایک باپ کی لاش ملی ۔ جس کی زندگی کا سارا سرمایہ ڈوب چکا تھا ۔
موت کا سبب دل کی دھڑکن کا بند ہو جانا تھا ۔ لاش کے پاس ایک گڑیا پڑی تھی ۔ پنک
کلر کی گڑیا ۔۔!!
No comments:
Post a Comment