ح ۔ کی
کہاوتیں
(۸) حقہ پانی بند کرنا
:
پرانے زمانے میں دستور تھا کہ مہمان کی خاطر تواضع
حقہ اور ٹھنڈے پانی سے کی جاتی تھی۔ برادری یا محلہ میں اگر کوئی شخص کسی
جرم کا مرتکب ہوتا تو بزرگوں کی پنچایت بیٹھتی اور سزا کے طور پر اس کا حقہ
پانی بند کر دیتی۔ اس طرح اس کا سوشل بائیکاٹ ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد سب لوگ اس
شخص اور اُس کے گھر والوں سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کر دیتے تھے۔ جب تک وہ
پنچایت کی شرائط پر راضی نہیں ہو جاتے تھے ان کا حقہ پانی بند
رہتا تھا۔ گویا اس کہاوت کا مطلب کسی کا مکمل سماجی مقاطعہ یعنی سوشل بائیکاٹ کر
دینا ہے۔
( ۹ ) حکم حاکم، مرگ
مفاجات :
مُفاجات یعنی وہ چیز جو اچانک آ کر پکڑ لے۔ مطلب یہ ہے کہ
حاکم وقت کا حکم ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اچانک آ جانے والی موت، گویا اس کی تعمیل سے
فرار ممکن نہیں ہے۔
( ۱۰ ) حلق سے نکلی خلق میں
پہنچی :
یعنی جو بات منھ سے نکل جائے وہ آناً فاناً چاروں طرف
پھیل جاتی ہے۔یہی بات ایک اور کہاوت منھ سے نکلی،ہوئی پرائی بات
میں بھی کہی گئی ہے۔
(۱۱) حلوائی اپنی دہی کو کھٹا
نہیں کہتا :
کو ئی انسان اپنی برائیاں دوسروں کو نہیں
بتاتا ہے۔ یہ ایسی ہی انہونی بات ہے جیسے کوئی حلوائی اپنی دہی کو خود ہی
کھٹا بتائے۔ جب کوئی شخص اپنی چیز میں خوبی ہی خوبی بتائے تب یہ کہاوت بولی
جاتی ہے۔
( ۱۲ ) حلوائی کی دوکان، دادا
جی کی فاتحہ :
کوئی شخص مفت ہی کوئی بڑا کام کرا نے کی کوشش کرے تو یہ
کہاوت کہی جاتی ہے۔ حلوائی کی دوکان میں اپنا پیسہ نہیں لگا ہوتا گویا
تمام مال مفت کا ہوتا ہے اور دادا جی کی فاتحہ استعارہ ہے کسی بڑے اور نیک کام کا۔
(۱۳ ) حور کی بغل میں
لنگور :
کسی حسینہ کے ہمراہ بد شکل
آدمی ہو تو یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment