سورۃ
الزخرف
مکی سورت ہے۔
نواسی آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’زخرف‘‘ کے معنیٰ آرائش و زیبائش کے ہیں۔ اس سورت میں کافروںکے
لئے ہر طر کی ’’زخرف‘‘ کا تذکرہ ہے۔ واضح کتاب کی آیتیں اور عربی زبان
میں قرآن اس لئے اتارا تاکہ اہل عقل و دانش اس سے استفادہ کرسکیں۔ پھر توحید و
رسالت کے موضوع پر گفتگو ہے اور سواریوں کو نقل و حمل کے لئے انسان کے تابع بنانے
پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین ہے اور تیرہ اور چودہ نمبر آیت میں سواری کی
دعاء مذکور ہے پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارا تابع بنادیا ہم اسے اپنے
قابو میں نہیں لاسکتے تھے اور ہم نے لوٹ کر اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے۔ پھر فرشتوں
کو اللہ کی اولاد قرار دینے اور مشرک و گمراہ آبائو اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت
کی گئی ہے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے مشرکانہ افعال سے
بیزاری و برائت اور اپنے خالق و مالک کے لئے یکسوئی اختیار کرنے کا بیان ہے۔ پھر
مشرکین کے اعتراض کا تذکرہ ہے کہ ایک غریب اور وسائل سے محروم شخص کو نبی بنانے کی
بجائے مکہ یا طائف کے کسی کردار کا انتخاب کیوں عمل میں نہیں لایا گیا۔ نبوت و
رسالت اللہ کی رحمت ہے اور اللہ جانتے ہیں کہ اس کا اہل کون ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو
اللہ کی رحمت تقسیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ باقی رہا مسئلہ امارت و وسائل کی
فراوانی کا تو اس کا نبوت و رسالت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے اس سے انسانوں کو
امتحان و آزمائش میںمبتلاء کیا جاتا ہے اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ساری دنیا کے مال
و دولت کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر لوگوں کے اسلام
سے منحرف ہوکر کافر ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھروں
کو سونے چاندی سے مزین (Decorate) کردیتے، یہ تو دنیا کا عارضی متاع ہے اور
متقیوں کے لئے آخرت ہے۔ اللہ کے ذکر سے غفلت برتنے والوں کا ساتھی شیطان بن کر
انہیں راہ راست سے روکتا ہے۔ یہ لوگ جب قیامت کے دن ہمارے پاس آئیں گے تو شیطان
سے بیزاری کا بے فائدہ اظہار کریںگے یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں آپ انہیں قرآن
سنا کر گمراہی سے نہیں نکال سکیں گے۔ آپ وحی کی اتباع کرتے ہوئے صراط مستقیم پر
ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ یہ قرآن کریم آپ اور آپ کی قوم کے لئے بہت بڑا
اعزاز ہے اور آپ لوگوں کے تذکرہ کے باقی رہنے کا ذریعہ ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ
السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر مبعوث کئے جانے کا ذکر اور مالی وسائل اور
دنیوی جاہ و حشمت سے محرومی کے حوالہ سے فرعون کے اعتراضات مذکور ہیں جب فرعون نے
اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ میرا اور موسیٰ کا تقابل کرکے دیکھو میں مصر کا حکمران
ہوں۔ حور و قصور کا مالک ہوں، باغات اور نہروں کا نظام میرے اختیار میں ہے جبکہ
موسیٰ علیہ السلام غریب، وسائل سے تہی دامن اور بات کرنے کے سلیقہ سے بھی عاری
ہیں۔ اگر یہ نبی ہوتے تو ان پر سونے کے زیورات کی بارش ہوتی یا فرشتے اس کے آگے
پیچھے جلوس کی شکل میں چلا کرتے۔ اس نے اس قسم کی باتیں کرکے اپنی قوم کو بیوقوف
بنا کر اللہ کی نافرمانی پر تیار کرلیا جس سے ہمیں غصہ آیا اور ہم نے انتقاماً
انہیں سمندر میں غرق کرکے اگلوں اور پچھلوں کے لئے نشانِ عبرت بنادیا۔ پھر عیسیٰ
علیہ السلام ان کی بندگی اور ان پر اللہ کے انعامات کا نہایت دلنشین پیرائے میں
ذکر موجود ہے۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ مؤمنین و متقین کی دوستیاں قیامت میں
بھی برقرار رہیں گی اور وہ ہر قسم کی پریشانی اور غم سے نجات پاکر جنت کی نعمتوں
سے سرشار ہوں گے۔ جبکہ مجرمین اپنے ظلم کے نتیجہ میں جہنم کے عذاب میں حیران و
سرگرداں ہوں گے۔ پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ
آسمان و زمین میں ایک ہی معبود ہے اسی کی حکمرانی ہے اور وہی قیامت کا صحیح علم رکھتا
ہے۔ آپ ان کافروں کے ساتھ بحث بازی میں الجھنے کی بجائے انہیں نظر انداز کریں اور
چشم پوشی کا مظاہرہ کریں۔ عنقریب انہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔
Why just why this long
ReplyDeleteMake it short
ReplyDelete