تری
نگاہ کا نیلم ترے لبوں کے عقیق
سوادِ
غم میں سدا سے مرے جنوں کے رفیق
زمانہ
اس لئے سب تجھ پہ جان دیتا ہے
تری
نگاہ عنایت تری زبان خلیق
یہ
آسمان کی ہم عصر نیلگوں آنکھیں
نظر
ملائیں تو گہرے سمندروں سے عمیق
جو لوگ
دور کھڑے ہم پہ مسکراتے ہیں
انہیں
بھی حد سے گزرنے کی اب ملے توفیق
تری
نگاہ بھی ناکام لوٹ جائے گی
کتاب
عشق کا کھلتا ہے اب وہ باب دقیق
زمین
ماں کی طرح سب سے پیار کرتی ہے
شفیق
باپ سے بڑھ کر ہے آسمان شفیق
No comments:
Post a Comment