((
کیا یہ میرا درد نھیں. ؟
))
کسی نے اک مرتبہ سوال کیا تھا مجھ سے کہ تمہیں کبھی روتے ہوئے
نھیں دیکھا تو میں نے کہا تھا کہ بھائی پتا نہیں کیا بات ہے مجھے سوائے اپنے رب سے
مناجات کے وقت کے کبھی رونا نہیں آتا. حتیٰ کہ کسی کی میت پر بھی رونا نہیں آتا سچی بات ہے
کہ جھوٹے آنسو بہا کر طعنوں سے بچ جاتا ہوں. لیکن ماسوائے چند ایک اموات کے مجھے
کسی میت پر بھی رونا نہیں آیا آج تک چاہے
کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو مرنے والا.
سوال ہوا کہ کیوں رونا نہیں آتا زندگی میں تو بڑے بڑے نازک
مرحلے آتے ہیں تمھیں رونا کیوں نھیں آتا؟؟؟
میری سنو بھائی. پاں یہ سچ ہے کہ بڑے نازک لمحات ہوتے ھیں
زندگی میں جب کسی بھی انسان کا دل پھٹ جاتا ہے شدتِ غم سے اور آنکھیں اشکوں کی
آبشاریں بہا رہی ہوتی ہیں. مجھ پر بھی گزرے ہیں ایسے لمحے جب دل بری طرح کچلا جاتا
ہے جب میری ذات اندر و باہر سے مجروح ہوتی ھے جب کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر ، ، ،
سچی بات ھے مجھے رونا پھر بھی نہیں آتا کہ جب میرا نفس میرے
دل کو اپنی ذات کا درد محسوس کروا کر رلانے کی سرتوڑ کوشش میں ہوتا ہے عین اسی
لمحے میرا دل میرے آقا و مولیٰ سرکارِ دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلا
کی مظلوم امت کی اجڑی ہوئی برباد اور ویران بستیوں کی
طرف چل نکلتا ہے. اور وہ تاریخ کی تباہی کو نہیں جاتا بلکہ اسی زمانہ میں موجود
رہتا ہے.
ان سب جگہوں میں پتا کیا دیکھتا ھے یہ دل. ؟؟؟؟
وہاں کی آباد بستیاں جن کی بربادی کا پتا وہاں سے اٹھنے والا دھواں دے رہا ہوتا ہے.
وہاں کے حسرت کے مارے والدین جن کی اولادوں میں سے کچھ گولیوں سے چھلنی ہوگئے کچھ بموں سے فضا آلودہ کرگئے کچھ جو پکڑے گئے ان پر درندگی کب تک ناچے گی انھیں کچھ نہیں پتا. اور جو بیٹیاں پکڑی گئیں ان کے وجود سے کچھ یوں کھیلا گیا کہ جسم میں خون کم اور مادہ منویہ ذیادہ دوڑنے لگا.
وہاں کے بچے دیکھے جن کے والدین زندہ تھے یا مرگئے انھیں معلوم نھیں مگر وہ اپنے کٹے پٹھے زندہ لاشوں کا بوجھ ٹوٹی ہوئی زخموں سے چور ٹانگوں پر لادے گلیوں میں دیوانہ وار گرتے پڑتے ھائے بابا اور ہائے ماں پکارتے جاتے تھے.
وہاں بوڑھے مرد و خواتین دیکھے ان کا نہ تو کوئی ماں باپ رہا تھا نہ اولاد. اور وہ اپنےزندہ بچ جانے پر واویلا کرتے رو رہے تھے.
یہ تو تھے زندہ لوگ مگر وہاں گلتی سڑتی لاشیں دیکھیں جن کے وجود سے بارود کا دھواں اٹھ رہا ہوتا تھا. اور ان کی بدبو سے اس جگہ سانس لیتے ہوئے موت پڑ رہی تھی.
یہ تو پھر لاشیں تھیں مگر اس دلِ ناہنجار نے وہاں اک ہاتھ دیکھا کوئی قریب چھ ماہ کے بچے کا تھا. باقی وجود غائب تھا. چند کٹے ہوئے پاؤں دہکھے اور سر تو قریبا ہر عمر کا دستیاب تھا ان گلیوں میں. بس باقی وجود حذف ھوتا تھا.
یہ تو مظالم کے بعد کی شارٹ سٹوری تھی ظلم ہوتے ہوئے جو دیکھے وہ بعید از بیاں ہیں. کہ لکھنے بیٹھوں تو خود کی سانسیں اکھڑتی معلوم ہوتی ہیں. بس اک منظر بتا دیتا ہوں جو آنکھوں سے دیکھا اک وڈیو میں کہ اک معصوم سی جان پر زندہ معصوم جان پر فوجی ٹینک گزارا گیا اور اسے سڑک کے ساتھ پریس کر دیا گیا.
لاکھوں جو بےگھر ہوگئے دربدر ھوگئے ان کا کیا بن رہا ہے؟؟؟؟
ہمیں تو اتنا سوچنے کی بھی توفیق نھیں ہوتی
کیونکہ کبھی ہم نے نبوت والا درد دل میں پالا ہی نھیں. بس نفس کا درد ہی درد سمجھا
ہے.
میرے بس میں کچھ نہیں ماسوائے دعا کے اور سوشل میڈیا کی مہم کے سو میں اپنے حصے کا اتنا تو کرتا ہوں. کہ جب مجھ پر غم آتے ہیں تو دل کو اپنے محبوب کی امت کے غم یاد دلاتا ہوں کہ صبر کر اور شکر کر. کہ تیرا غم تو ان کے دکھوں کی دھول کو بھی نہیں پہنچتا. تو دل اپنا غم بھول جاتا ہے. آنکھیں پتھرائی ہوئی سامنے رکھی میت کو دیکھتی ہیں کہ یہ میرا غم ہے مگر دل ان وادیوں میں گھومتا خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے کہ اگر سامنے رکھی یہ ایک میت تیرا غم ھے تو صحابہ کی اولادوں کی یہ لاکھوں میتیں کس کا غم ہیں؟؟؟
اس لئے میں نھیں روتا کہ اپنا غم تو غم ہی نھیں.
الله ہمارے دلوں کو وہ رمز دے کہ دنیا کے ہر مسلمان کا درد ہمیں کم از کم اپنا درد تو لگے.
میرے بس میں کچھ نہیں ماسوائے دعا کے اور سوشل میڈیا کی مہم کے سو میں اپنے حصے کا اتنا تو کرتا ہوں. کہ جب مجھ پر غم آتے ہیں تو دل کو اپنے محبوب کی امت کے غم یاد دلاتا ہوں کہ صبر کر اور شکر کر. کہ تیرا غم تو ان کے دکھوں کی دھول کو بھی نہیں پہنچتا. تو دل اپنا غم بھول جاتا ہے. آنکھیں پتھرائی ہوئی سامنے رکھی میت کو دیکھتی ہیں کہ یہ میرا غم ہے مگر دل ان وادیوں میں گھومتا خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے کہ اگر سامنے رکھی یہ ایک میت تیرا غم ھے تو صحابہ کی اولادوں کی یہ لاکھوں میتیں کس کا غم ہیں؟؟؟
اس لئے میں نھیں روتا کہ اپنا غم تو غم ہی نھیں.
الله ہمارے دلوں کو وہ رمز دے کہ دنیا کے ہر مسلمان کا درد ہمیں کم از کم اپنا درد تو لگے.
No comments:
Post a Comment