عوام کی جان و مال کی حفاظت ہمارا اہم فریضہ
اِسلام تکریم اِنسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے
والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ
ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف
مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا
ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا
سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے
مترادف قرار دیاہے۔ اﷲ ل نے تکریم انسانیت کے حوالے سے قرآن حکیم سورت المائدة، 5: 32میں ارشاد فرمایا:
’’جس نے
کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل
کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘
اس آیت
مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاً ذکر کیا گیا ہے جس میں عورت یا مرد،
چھوٹے بڑے، امیر و غریب حتی کہ مسلم اور غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔ مدعا
یہ ہے کہ قرآن نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کرنے کی نہ صرف سخت ممانعت فرمائی
ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے۔ جہاں تک قانونِ قصاص وغیرہ میں قتل
کی سزا، سزائے موت (capital punishment) ہے، تو
وہ انسانی خون ہی کی حرمت و حفاظت کے لئے مقرر کی گئی ہے۔
مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے
سیاسی، فکری یا اعتقادی اختلافات کی بنا پر
مسلمانوں کی اکثریت (large majority) کو
کافر، مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہوئے انہیں بے دریغ قتل کرنے والوں کو معلوم ہونا
چاہیے کہ اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان
اور عزت و آبرو کی اَہمیت کعبۃ اﷲ سے بھی زیادہ ہے۔ صاحبِ شریعت حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا
ہے ۔
’’جو
شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے
ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی(ہی کیوں نہ)
ہو۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کھلے بندوں اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگا دی،
تاکہ نہ تو اسلحہ کی دوڑ شروع ہو اور نہ ہی اس سے کسی کو threat کیا جا سکے۔ ریاست کے جن اداروں کے لیے اسلحہ ناگزیر ہو وہ
بھی اس کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے foolproof security کے انتظامات کر تی ہے ۔ جس پر الحمد للہ ہم کا میاب بھی ہوئے
ہیں اور اس کامیابی کو اپنے ہاتھوں جانا
کسی صورت میں نہیں دینا بھی نہیں ہے
انشاء اللہ ۔
چنانچہ اگر کسی گروہ یا فرد کی جان ،مال آبرو پر حملہ ہو ، خواہ وہ کسی کی بھی طرف سے
ہو ،اس کے سد باب اور دفاع کرنا حتی المقدور
کوشش کرنا ہمارا فرض منصبی ہے
۔
اور یہی تعلیم ہمیں
ہماری مقدس کتاب دیتی ہے کہ : اگر
کوئی شخص ، کوئی گروہ تمہارے اجتماعی نظام
کو درہم برہم کرنا چاہے ، تو اس وقت اس کے مقابلے میں اور اور اس کے سد باب میں ہر گز کمزوری
نہ دکھاؤ بلکہ اپنی پوری طاقت اس
ظلم کے دفع کرنے میں صرف کردو۔
اب ہمیں زمانہ ، معاشرہ کی نبض کو
پہچاننا ہے ۔ اور عوام کے جان و مال ، آبرو کی حفاظت کے لیے حتی المقدر تمام تر کوششیں کرنی ہے ، ان شاء اللہ ۔
No comments:
Post a Comment