کمال
ِضبط کا یہ آخری ہنر بھی گیا
میں
آج ٹوٹ کے رویا اور اس کے گھر بھی گیا
یہ دکھ ہے اس کا کوئی ایک ڈھب تو ہوتا نہیں
ابھی امڈ ہی رہا تھا کہ جی ٹھہر بھی گیا
عجیب
غم تھا قبیلے کے حرف کار کا غم
کہ بے ثمر بھی گیا لفظ ، بے اثر بھی گیا
یہ ایک پل ، یہ مرا دل ، یہ زرد رنگ کا پھول
ابھی
کھلا بھی نہیں تھا ، ابھی بکھر بھی گیا
یہ
دشت زاد بگولا ، یہ رقص خو درویش
اگر میں ٹھیر گیا تو یہ ہم سفر بھی گیا
اگرچہ
خلوت ِ جاں سی اماں نہ تھی
لیکن یہ میرا زخم طلب دل اِدھر اُدھر بھی گیا
سعود
عشق بھی لاحق تھا اور زندگی بھی
سو
مندمل نہ ہوا اور زخم بھر بھی گیا
(سعود عثمانی ) "بارش "
No comments:
Post a Comment