آئیں گرنے پہ تو کہرام مچا دیتے ہیں
ہم پیمبر پہ بھی بہتان لگا دیتے ہیں
ہم قباوں میں وہ لپٹے ہوئے بیمار بدن
جو مسیحا کو ہی سولی پہ سجا دیتے ہیں
آئیں بننے پہ اگر رونقِ بازار کبھی
عصمتِ جبہ و دستار لٹا دیتے ہیں
لوگ دامن پہ لگے داغ چھپانے کے لئیے
اپنے ماتھے پہ سجا داغ دکھا دیتے ہیں
دُور پڑتا ہے گریبان ہمارا ہم کو
غیر کے دل کا مگر حال بتا دیتے ہیں
جس طرح اہل نظر اٹھتے چلے جاتے ہیں
آنے والے کسی محشر کا پتہ دیتے ہیں
خوب! کہتے ہیں کہ میں موت سے ڈرتا ہی نہیں
میرے دشمن مجھے الزام بھی کیا دیتے ہیں!
ہم ہیں صحرا کے جلاے ہوئے پیاسے طاؔہر
اپنے دشمن کو بھی بارش کی دعا دیتے ہیں
(احمد بشیر طاؔہر)
No comments:
Post a Comment