وہ نوکرانی نہیں تھی میری تھی
ایک دن میں اور زاہد صاحب آفس
کینٹین پر بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ میں نے
ان کے ہمہ وقت کے بجھے بجھے سے رویے کی وجہ پوچھی۔
وہ کہنے لگے: ’’مجھے آج مرے ہوئے تین سال ہو گئے‘‘میں نے نظریں
اٹھا کر ان کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اس جملے کے ساتھ ہی دنیا بھر کی نقاہت اتر
آئی تھی۔۔۔ پھر کہنے لگے:
’’میں ہمیشہ سے بد تمیز
رہا ہوں۔ بچپن میں سکول جاتے ہوئے ضد، کھانا کھاتے ہوئے نخرے، وہ نہیں یہ کھانا
ہے، یہ نہیں وہ کھانا ہے۔۔۔
مجھے
نہیں یاد کہ پانچویں کلاس تک میں نے اپنے ہاتھ سے نہایا، کھانا کھایا، کپڑے پہنے
یا جوتوں کے تسمے بند کیے ہوں۔ باپ کا
تو مجھے صرف نام ہی ملا۔ نہ کبھی اس کی صورت دیکھی اور نہ پیار۔ بھائی کا سہارا
کیا ہوتا ہے اور بہن کی محبت کیا ہوتی ہے کچھ معلوم نہیں۔ پرائمری، مڈل اور پھر میٹرک تک یہی عادت رہی کہ رات کو سونے سے پہلے
کتابیں، کاپیاں، بستہ غرض تمام چیزیں ادھر ادھر بکھری چھوڑ کر سو جاتا تھا مگر صبح
آنکھ کھلتے ہی دیکھتا کہ تمام چیزیں بہت سلیقے سے بستے میں پڑی ہیں اور بستہ بڑی
نفاست سے میز پر پڑا ہے۔
مجھے لاکھ
بار کہا جاتا کہ دودھ پی کر سونا مگر میں نہیں پیتا تھا۔ لیکن جب صبح اٹھتا تولب
شیریں اور منھ کا ذائقہ بدلا ہوتا۔ پہلے پہل تو پتہ نہیں چلتا تھا مگر آہستہ آہستہ
پتہ چل گیا کہ رات کو نیند میں ہی دودھ پلا دیا جاتا ہے۔ رات کو کبھی آنکھ کھلتی
تو دیکھتا کہ بارش ہو رہی ہے اور مجھ پر کمبل ڈال دیا گیا ہے کہ سردی نہ لگے۔ مجھے ہمیشہ گھر میں دو ہی چیزوں سے چڑ رہی۔۔۔
ایک
11 سے 13 گھنٹے تک ہاتھ سے چلائی جانے والی سلائی مشین سےاور دوسری روٹی کے کناروں
سے کہ ان پر اکثر گھی لگنے سے رہ جاتا تھا مگر روٹی کے وہ سوکھے ٹکڑے جو میں اتار
دیتا تھا نہ تو کبھی گھر سے باہر فروخت ہوتے دیکھے اور نہ ہی کوڑا دان میں کبھی
نظر آئے۔
اور جب بھی مجھے پیسے چاہیے ہوتے تو میں اسی سلائی مشین کا رخ کرتا جس سے
مجھے چڑ تھی۔
جب بھی مجھے کبھی معمول
سے ہٹ کر زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوتی تو دیکھتا کہ گھر میں سلائی مشین کے چلنے
دورانیہ 16 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ مجھے یاد ہے کالج میں داخلہ کے وقت مجھے 1500
روپیہ چاہیے تھا، میں نے گھر آ کر بتا دیا۔
اُسی رات 2 بجے کے قریب میری آنکھ کھلی
تو گھر کے برآمدے میں کچھ کھٹ پٹ ہوتی محسوس ہوئی ذرا مزید غور کرنے پر یہ بھی محسوس
ہوا کہ جیسے کوئی گھٹی گھٹی سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہو۔ چپکے سے برآمدے میں جا کر دیکھا تو موٹے شیشے کا چشمہ لگائے میری ماں جانے
کب مشین میں دھاگہ ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ آنسو بھی گر رہے
ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا کر رہی ہے ماں؟؟؟ ماں نے چونک کر میری طرف دیکھا اور جلدی سے آنسو
صاف کرتے ہوئےاور چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بالکل صاف آواز میں کہنے لگی۔۔۔
وہ
سامنے والی ثریا کے بھائی کی شادی ہے تو اس نے کہا کہ صبح تک دو سوٹ سلائی کردو اس
لئے بیٹھی ہوں لیکن دھاگا سوئی میں نہیں ڈل رہا۔۔۔ اس دن مجھے ماں کی حالت اور آنسو دیکھ کر احساس ہوا کہ مجھے کوئی چھوٹا
موٹا کام کرنا چاہیے۔۔۔ میں
مناسب کام بھی ڈھونڈتا رہا اور پڑھتا بھی رہا۔
اُدھر ایف۔اے مکمل ہوا اور ادھر آفس
میں کام مل گیا۔ میں نے گھر جا کر ماں کو بتایا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔ فوری
شکر پارے لا کر محلے میں بانٹے۔ ایک دن
میں کام سے گھر آ کر لیٹ گیا۔
تھوڑی تھکاوٹ ہو رہی تھی۔ پاؤں چارپائی سے لٹکائے ہی
سو گیا۔ جب اٹھا تو دیکھا کہ خلاف معمول آج نہ جوتے میرے پاؤں سے اترے تھے اور نہ
ہی کھانا بنا تھا۔ ماں کو
آواز دی: ’’ماں، ماں ، ماں اٹھ بھوک لگی ہے، ماں ں ں ں‘‘ چیخ چیخ کر رویا، ہزار
منتیں او ر ترلے کیے مگر شاید ماں اب کی بار اٹھنے کے لئے نہیں سوئی تھی۔ ماں کے بعد وہ گھر چھوڑ دیا۔ قبرستان لگتا تھا۔
ادھر دیارِ غیر میں آ کر میں اپنا سارا کام خود کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں نے
کبھی جس کی خدمت نہ کی اور نہ کبھی آسائش و سکوں دیا ’
’وہ میری ماں تھی نوکرانی
نہیں تھی‘‘
یہ کہتے ہوئے زاہد کے دو موٹے موٹے آنسو رخساروں پر بہہ گئے۔
اللہ تعالیٰ میرے اور جس کے بھی والدین حیات ہیں
سب کے والدین کو ایمان و صحت کے ساتھ خوش رکھے۔ جن کے والدین وفات پا گئے اللہ تعالی ان کو صبر دے اور ان کے والدین کی
مغفرت فرمائے
.
No comments:
Post a Comment